Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Firaq Gorakhpuri's Photo'

فراق گورکھپوری

1896 - 1982 | الہٰ آباد, انڈیا

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف۔ گیان پیٹھ انعام سے سرفراز

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف۔ گیان پیٹھ انعام سے سرفراز

فراق گورکھپوری کے اشعار

190.7K
Favorite

باعتبار

بہت حسین ہے دوشیزگیٔ حسن مگر

اب آ گئے ہو تو آؤ تمہیں خراب کریں

ترا فراقؔ تو اس دن ترا فراق ہوا

جب ان سے پیار کیا میں نے جن سے پیار نہیں

لائی نہ ایسوں ویسوں کو خاطر میں آج تک

اونچی ہے کس قدر تری نیچی نگاہ بھی

سمجھنا کم نہ ہم اہل زمیں کو

اترتے ہیں صحیفے آسماں سے

وہ کچھ روٹھی ہوئی آواز میں تجدید دل داری

نہیں بھولا ترا وہ التفات سر گراں اب تک

مرے دل سے کبھی غافل نہ ہوں خدام میخانہ

یہ رند لاابالی بے پیے بھی تو بہکتا ہے

نیند آ چلی ہے انجم شام ابد کو بھی

آنکھ اہل انتظار کی اب تک لگی نہیں

جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے

وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں

آنکھ چرا رہا ہوں میں اپنے ہی شوق دید سے

جلوۂ حسن بے پناہ تو نے یہ کیا دکھا دیا

لطف و ستم وفا جفا یاس و امید قرب و بعد

عشق کی عمر کٹ گئی چند توہمات میں

حیات ہو کہ اجل سب سے کام لے غافل

کہ مختصر بھی ہے کار جہاں دراز بھی ہے

کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا

کچھ فضا کچھ حسرت پرواز کی باتیں کرو

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

دنیا تھی رہ گزر تو قدم مارنا تھا سہل

منزل ہوئی تو پاؤں کی زنجیر ہو گئی

رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہونے لگا

خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم

عقل میں یوں تو نہیں کوئی کمی

اک ذرا دیوانگی درکار ہے

موت کا بھی علاج ہو شاید

زندگی کا کوئی علاج نہیں

اک فسوں ساماں نگاہ آشنا کی دیر تھی

اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے

عشق کے درد کا خود عشق کو احساس نہیں

کھنچ گیا بادہ سے بھی درد تہ جام بہت

عنایت کی کرم کی لطف کی آخر کوئی حد ہے

کوئی کرتا رہے گا چارۂ زخم جگر کب تک

پردۂ لطف میں یہ ظلم و ستم کیا کہیے

ہائے ظالم ترا انداز کرم کیا کہیے

معلوم ہے محبت لیکن اسی کے ہاتھوں

اے جان عشق میں نے تیرا برا بھی چاہا

مائل بیداد وہ کب تھا فراقؔ

تو نے اس کو غور سے دیکھا نہیں

میں آسمان محبت سے رخصت شب ہوں

ترا خیال کوئی ڈوبتا ستارہ ہے

سرحد غیب تک تجھے صاف ملیں گے نقش پا

پوچھ نہ یہ پھرا ہوں میں تیرے لیے کہاں کہاں

میں مدتوں جیا ہوں کسی دوست کے بغیر

اب تم بھی ساتھ چھوڑنے کو کہہ رہے ہو خیر

اسی دنیا کے کچھ نقش و نگار اشعار ہیں میرے

جو پیدا ہو رہی ہے حق و باطل کے تصادم سے

خوش بھی ہو لیتے ہیں تیرے بے قرار

غم ہی غم ہو عشق میں ایسا نہیں

وقت غروب آج کرامات ہو گئی

زلفوں کو اس نے کھول دیا رات ہو گئی

تو یاد آیا ترے جور و ستم لیکن نہ یاد آئے

محبت میں یہ معصومی بڑی مشکل سے آتی ہے

یہ مانا زندگی ہے چار دن کی

بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی

جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں

وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے

بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی

تارا ٹوٹتے سب نے دیکھا یہ نہیں دیکھا ایک نے بھی

کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا کس کا سہارا ٹوٹ گیا

قفس والوں کی بھی کیا زندگی ہے

چمن دور آشیاں دور آسماں دور

فرش مے خانہ پہ جلتے چلے جاتے ہیں چراغ

دیدنی ہے تری آہستہ روی اے ساقی

اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں

کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں

ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست

وصال کو مری دنیائے آرزو نہ بنا

پال لے اک روگ ناداں زندگی کے واسطے

صرف صحت کے سہارے عمر تو کٹتی نہیں

کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی

امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی

کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں

زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ

ضبط کیجے تو دل ہے انگارا

اور اگر روئیے تو پانی ہے

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

تشریح

اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ کافی دلچسپ شعر ہے۔ سودا کے معنی جنون یا پاگل پن۔ چونکہ عشق کا آغاز دل سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا جنون ہوتا ہے۔ عشق میں جنون کی حالت وہ ہوتی ہے جب عاشق کا اپنے دماغ پر قابو نہیں ہوتا ہے۔ اس شعر میں فراقؔ نے انسانی نفسیات کےایک نازک پہلو کو مضمون بنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگرچہ میں نے ترکِ محبت کی ہے۔ یعنی محبت سے کنارہ کیا ہے۔ اور میرے دماغ میں اب جنون کی کیفیت بھی نہیں۔ اور میرے دل میں اب محبوب کی تمنا بھی نہیں۔ مگر عشق کب پلٹ کر آجائے اس بات کا کوئی بھروسا نہیں۔ آدمی اپنی طرف سے یہی کرسکتا ہے کہ عقل کو خلل سے اور دل کو تمنا سے دور رکھے مگر عشق کا کوئی بھروسا نہیں کہ کب پھر بے قابو کر دے۔

شفق سوپوری

دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی

کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

کیا جانئے موت پہلے کیا تھی

اب میری حیات ہو گئی ہے

رہا ہے تو مرے پہلو میں اک زمانے تک

مرے لئے تو وہی عین ہجر کے دن تھے

ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس

کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں

ایک رنگینی ظاہر ہے گلستاں میں اگر

ایک شادابی پنہاں ہے بیابانوں میں

لے اڑی تجھ کو نگاہ شوق کیا جانے کہاں

تیری صورت پر بھی اب تیرا گماں ہوتا نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے