Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انگڑائی پر اشعار

شاعری میں تخیل کی پروازنے

بدن کی عام سی حرکات کو بھی حسن کے ایک دلچسپ بیانیے میں تبدیل کردیا ہے ۔ انگڑائ اوراس کی پوری جمالیات جس رنگا رنگی کے ساتھ اردو شاعری میں نظرآتی ہے وہ شاعروں کے ذہن کی زرخیزی اور ان کے تخیل کی بلند پروازی کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔ بعض اشعار کو پڑھ کرتوایسا محسوس ہوتا ہے کہ حسن کا واحد مرکزانگڑائی کا عمل ہی ہے ۔ محبوب کے بدن میں فن کاروں کی دلچسپی کی یہ کتھا ہمارے اس انتخاب میں پڑھئے ۔

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ

دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دئیے مسکرا کے ہاتھ

نظام رامپوری

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے

جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

پروین شاکر

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو

وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

جون ایلیا

الٰہی کیا علاقہ ہے وہ جب لیتا ہے انگڑائی

مرے سینے میں سب زخموں کے ٹانکے ٹوٹ جاتے ہیں

جرأت قلندر بخش

تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو

آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ

شکیل بدایونی

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہے ہمیں

کتنی ظالم ہے تیری انگڑائی

جگر مراد آبادی

کون انگڑائی لے رہا ہے عدمؔ

دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں

عبد الحمید عدم

سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا

کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا

شاد عظیم آبادی

کون یہ لے رہا ہے انگڑائی

آسمانوں کو نیند آتی ہے

فراق گورکھپوری

دل کا کیا حال کہوں صبح کو جب اس بت نے

لے کے انگڑائی کہا ناز سے ہم جاتے ہیں

داغؔ دہلوی

لٹ گئے ایک ہی انگڑائی میں ایسا بھی ہوا

عمر بھر پھرتے رہے بن کے جو ہشیار بہت

قیس رامپوری

دریائے حسن اور بھی دو ہاتھ بڑھ گیا

انگڑائی اس نے نشے میں لی جب اٹھا کے ہاتھ

امام بخش ناسخ

شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا

مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے

جون ایلیا

بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات

آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

ساغر صدیقی

شاخ گل جھوم کے گل زار میں سیدھی جو ہوئی

پھر گیا آنکھ میں نقشہ تری انگڑائی کا

آغا حجو شرف

حد تکمیل کو پہنچی تری رعنائی حسن

جو کسر تھی وہ مٹا دی تری انگڑائی نے

آنند نرائن ملا

کیا کیا دل مضطر کے ارمان مچلتے ہیں

تصویر قیامت ہے ظالم تری انگڑائی

رام کرشن مضطر

کیوں چمک اٹھتی ہے بجلی بار بار

اے ستم گر لے نہ انگڑائی بہت

ساحل احمد

پیام زیر لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا

اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی رہا نہ گیا

یگانہ چنگیزی

ان سے چھینکے سے کوئی کوئی چیز اتروائی ہے

کام کا کام ہے انگڑائی کی انگڑائی ہے

بوم میرٹھی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے