تنہائی پر اشعار
کلاسیکی شاعری میں تنہائی
روایتی عشق کی پیدا کردہ تھی ۔ محبوب وصل سے انکار کردیتا تھا تو عاشق تنہا ہو جاتا تھا ۔ اس تنہائی میں محبوب کی یاد اس کا سہارا بنتی لیکن تنہائی کو جدید شاعروں نے جس وسیع سیاق میں برتا ہےاور اسے جدید دور کے جس بڑے عذاب کے طور دیکھا ہے اس سے شعری موضوعات میں اور اضافہ ہوا ہے ۔ تنہائی کو موضوع بنانے والے شعروں کا ہمارا یہ انتخاب ایک سطح پر جدید غزل کو سمجھنے میں بھی معاون ہوگا ۔
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے
تشریح
یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے شدید تنہائی کے عالم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تلازمات میں شدت بھی ہے اور احساس بھی۔ ’’سرد رات‘‘، ’’آوارگی‘‘اور ’’نیند کا بوجھ‘‘ یہ ایسے تین عالم ہیں جن سے تنہائی کی تصویر بنتی ہے اور جب یہ کہا کہ ’’ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے‘‘ تو گویا تنہائی کے ساتھ ساتھ بےخانمائی کے المیہ کی تصویر بھی کھینچی ہے۔ شعر کا بنیادی مضمون تنہائی اور بےخانمائی اور اجنبیت ہے۔ شاعر کسی اور شہر میں ہیں اور سرد رات میں آنکھوں پر نیند کا بوجھ لے کے آوارہ گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ شہر میں اجنبی ہیں اس لئے کسی کے گھر نہیں جا سکتے ورنہ سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ وہ مجبوریاں ہیں جو کسی ٹھکانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مگر شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ تنہائی کے شہر میں کسی کو جانتے نہیں اسی لئے کہتے ہیں اگر میں اپنے شہر میں ہوتا تو اپنے گھر گیا ہوتا۔
شفق سوپوری
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند
-
موضوع : چاند
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
-
موضوعات : انتظاراور 2 مزید
میں ہوں دل ہے تنہائی ہے
تم بھی ہوتے اچھا ہوتا
مجھے تنہائی کی عادت ہے میری بات چھوڑیں
یہ لیجے آپ کا گھر آ گیا ہے ہات چھوڑیں
اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں
کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں
شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے
ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے
آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے
اپنے ہونے کا کچھ احساس نہ ہونے سے ہوا
خود سے ملنا مرا اک شخص کے کھونے سے ہوا
اک سفینہ ہے تری یاد اگر
اک سمندر ہے مری تنہائی
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوع : خواب
مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں
مگر ہر شخص تنہا جا رہا ہے
-
موضوع : مسافر
بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے
یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
-
موضوعات : عیداور 1 مزید
تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست
اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں لگتے ہیں
کسی حالت میں بھی تنہا نہیں ہونے دیتی
ہے یہی ایک خرابی مری تنہائی کی
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے
کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے
شور دن کو نہیں سونے دیتا
شب کو سناٹا جگا دیتا ہے
شہر کی بھیڑ میں شامل ہے اکیلا پن بھی
آج ہر ذہن ہے تنہائی کا مارا دیکھو
-
موضوع : ذہنی صحت
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تاحد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے
تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا
یہ کس مقام پہ لائی ہے میری تنہائی
کہ مجھ سے آج کوئی بد گماں نہیں ہوتا
یہ انتظار نہیں شمع ہے رفاقت کی
اس انتظار سے تنہائی خوبصورت ہے
-
موضوع : انتظار
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاقؔ
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا
کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ
ایک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا
-
موضوع : گھر
در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں
خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
یہ کیسا قافلہ ہے جس میں سارے لوگ تنہا ہیں
یہ کس برزخ میں ہیں ہم سب تمہیں بھی سوچنا ہوگا
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
-
موضوعات : قبراور 1 مزید
ہجر و وصال چراغ ہیں دونوں تنہائی کے طاقوں میں
اکثر دونوں گل رہتے ہیں اور جلا کرتا ہوں میں
-
موضوعات : وصالاور 1 مزید
کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا
تم سے ملے تو خود سے زیادہ
تم کو اکیلا پایا ہم نے
چاند تنہا ہے آسماں تنہا
دل ملا ہے کہاں کہاں تنہا
-
موضوع : درد
ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے
کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا
-
موضوع : رسوائی
اس بلندی پہ بہت تنہا ہوں
کاش میں سب کے برابر ہوتا
جمع کرتی ہے مجھے رات بہت مشکل سے
صبح کو گھر سے نکلتے ہی بکھرنے کے لیے
-
موضوع : حالات
بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا
گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا
-
موضوعات : شہراور 1 مزید
میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
-
موضوعات : آنچ شاعریاور 1 مزید
ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں
تری یاد آنکھیں دکھانے لگی
-
موضوعات : آنکھاور 1 مزید
وہ نہیں ہے نہ سہی ترک تمنا نہ کرو
دل اکیلا ہے اسے اور اکیلا نہ کرو