رنگ پر اشعار
رنگ پر شاعری مختلف رنگوں
سے بھری ہوئی ہے ۔ یہ شاعری تخلیق کار کے ذہن کی زرخیزی کا توانا اظہار بھی ہے کہ وہ کس طرح چیزوں کے درمیان مناسبتیں تلاش کرتا ہے اور شاعری کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے ۔
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
-
موضوعات : بارشاور 1 مزید
کسی کلی کسی گل میں کسی چمن میں نہیں
وہ رنگ ہے ہی نہیں جو ترے بدن میں نہیں
رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے
ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں
-
موضوعات : تصویراور 1 مزید
لب نازک کے بوسے لوں تو مسی منہ بناتی ہے
کف پا کو اگر چوموں تو مہندی رنگ لاتی ہے
-
موضوعات : بوسہاور 1 مزید
غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے
ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ
-
موضوعات : آنسواور 2 مزید
اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ
اور ہی لایا فراق یار رنگ
-
موضوعات : ہجراور 1 مزید
مجھ کو احساس رنگ و بو نہ ہوا
یوں بھی اکثر بہار آئی ہے
تمہارے رنگ پھیکے پڑ گئے ناں؟
مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے
بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے
گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے
-
موضوعات : بہاراور 2 مزید
رنگ ہی سے فریب کھاتے رہیں
خوشبوئیں آزمانا بھول گئے
کس کی ہولی جشن نو روزی ہے آج
سرخ مے سے ساقیا دستار رنگ
-
موضوعات : شراباور 1 مزید
وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اس کے بعد
کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں
-
موضوعات : تہواراور 1 مزید
ہزار رنگ بد اماں سہی مگر دنیا
بس ایک سلسلۂ اعتبار ہے، کیا ہے
اجالوں میں چھپی تھی ایک لڑکی
فلک کا رنگ روغن کر گئی ہے
-
موضوع : فلک
عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے
خزاں کا رنگ بھی رنگ بہار جیسا تھا
تو بھی دیکھے گا ذرا رنگ اتر لیں تیرے
ہم ہی رکھتے ہیں تجھے یاد کہ سب رکھتے ہیں
کب تک چنری پر ہی ظلم ہوں رنگوں کے
رنگریزہ تیری بھی قبا پر برسے رنگ
-
موضوع : ہولی
سیکڑوں رنگوں کی بارش ہو چکے گی اس کے بعد
عطر میں بھیگی ہوئی شاموں کا منظر آئے گا
وہ کودتے اچھلتے رنگین پیرہن تھے
معصوم قہقہوں میں اڑتا گلال دیکھا
-
موضوعات : تہواراور 3 مزید
دشت وفا میں جل کے نہ رہ جائیں اپنے دل
وہ دھوپ ہے کہ رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے
-
موضوعات : دلاور 2 مزید
شب جو ہولی کی ہے ملنے کو ترے مکھڑے سے جان
چاند اور تارے لیے پھرتے ہیں افشاں ہاتھ میں
وہ آئے تو رنگ سنورنے لگتے ہیں
جیسے بچھڑا یار بھی کوئی موسم ہے
لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا
بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں
-
موضوعات : تہواراور 1 مزید
میں دور تھا تو اپنے ہی چہرہ پہ مل لیا
اس زندگی کے ہاتھ میں جتنا گلال تھا
کتنی رنگینیوں میں تیری یاد
کس قدر سادگی سے آتی ہے
ادھر بھی اک نظر اے جلوۂ رنگین و بیگانہ
طلوع ماہ کا ہے منتظر میرا سیہ خانہ
میرے عناصر خاک نہ ہوں بس رنگ بنیں
اور جنگل صحرا دریا پر برسے رنگ
کتنی بے رنگ زندگی ہے مری
عشق کے رنگ یار بھر دو نا