Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رنگ پر اشعار

رنگ پر شاعری مختلف رنگوں

سے بھری ہوئی ہے ۔ یہ شاعری تخلیق کار کے ذہن کی زرخیزی کا توانا اظہار بھی ہے کہ وہ کس طرح چیزوں کے درمیان مناسبتیں تلاش کرتا ہے اور شاعری کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے ۔

میرے عناصر خاک نہ ہوں بس رنگ بنیں

اور جنگل صحرا دریا پر برسے رنگ

سوپنل تیواری

رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے

ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں

ناظر وحید

موسم نے کھیت کھیت اگائی ہے فصل زرد

سرسوں کے کھیت ہیں کے جو پیلے نہیں رہے

مظفر حنفی

کسی کلی کسی گل میں کسی چمن میں نہیں

وہ رنگ ہے ہی نہیں جو ترے بدن میں نہیں

فرحت احساس

مجھ کو احساس رنگ و بو نہ ہوا

یوں بھی اکثر بہار آئی ہے

حبیب احمد صدیقی

سانس لیتا ہوا ہر رنگ نظر آئے گا

تم کسی روز مرے رنگ میں آؤ تو سہی

عزیز نبیل

اجالوں میں چھپی تھی ایک لڑکی

فلک کا رنگ روغن کر گئی ہے

سوپنل تیواری

رنگ ہی سے فریب کھاتے رہیں

خوشبوئیں آزمانا بھول گئے

انجم لدھیانوی

وہ آئے تو رنگ سنورنے لگتے ہیں

جیسے بچھڑا یار بھی کوئی موسم ہے

فرحت زاہد

سیکڑوں رنگوں کی بارش ہو چکے گی اس کے بعد

عطر میں بھیگی ہوئی شاموں کا منظر آئے گا

عزیز نبیل

دشت وفا میں جل کے نہ رہ جائیں اپنے دل

وہ دھوپ ہے کہ رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے

ہوش ترمذی

لب نازک کے بوسے لوں تو مسی منہ بناتی ہے

کف پا کو اگر چوموں تو مہندی رنگ لاتی ہے

آسی غازی پوری

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں

وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

جمال احسانی

تو بھی دیکھے گا ذرا رنگ اتر لیں تیرے

ہم ہی رکھتے ہیں تجھے یاد کہ سب رکھتے ہیں

اقبال خاور

میں دور تھا تو اپنے ہی چہرہ پہ مل لیا

اس زندگی کے ہاتھ میں جتنا گلال تھا

امیر قزلباش

کب تک چنری پر ہی ظلم ہوں رنگوں کے

رنگریزہ تیری بھی قبا پر برسے رنگ

سوپنل تیواری

کتنی رنگینیوں میں تیری یاد

کس قدر سادگی سے آتی ہے

فرید جاوید

عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے

خزاں کا رنگ بھی رنگ بہار جیسا تھا

جنید حزیں لاری

کس کی ہولی جشن نو روزی ہے آج

سرخ مے سے ساقیا دستار رنگ

امام بخش ناسخ

وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اس کے بعد

کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں

انور شعور

اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ

اور ہی لایا فراق یار رنگ

امام بخش ناسخ

وہ کودتے اچھلتے رنگین پیرہن تھے

معصوم قہقہوں میں اڑتا گلال دیکھا

محمد اعظم

شب جو ہولی کی ہے ملنے کو ترے مکھڑے سے جان

چاند اور تارے لیے پھرتے ہیں افشاں ہاتھ میں

مصحفی غلام ہمدانی

ادھر بھی اک نظر اے جلوۂ رنگین و بیگانہ

طلوع ماہ کا ہے منتظر میرا سیہ خانہ

ادا جعفری

کتنی بے رنگ زندگی ہے مری

عشق کے رنگ یار بھر دو نا

فیصل قادری گنوری

ہزار رنگ بد اماں سہی مگر دنیا

بس ایک سلسلۂ اعتبار ہے، کیا ہے

نکہت بریلوی

بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے

گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے

جلیل مانک پوری

میں نے کچھ رنگ اچھالے تھے ہواؤں میں نبیلؔ

اور تصویر تری دھیان سے باہر آئی

عزیز نبیل

لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا

بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں

شاہ نصیر

غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے

ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ

امام بخش ناسخ

تمہارے رنگ پھیکے پڑ گئے ناں؟

مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے

فریحہ نقوی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے