Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پھول پر اشعار

عام زندگی میں ہم پھول

کی خوشبو اور اس کے الگ الگ رنگوں کےعلاوہ اورکچھ نہیں دیکھتے ۔ پھول کوموضوع بنانےوالی شاعری کا ہمارا یہ انتخاب پڑھ کرآپ کوحیرانی ہوگی کہ شاعروں نے پھول کو کتنے زاویوں سے دیکھا اوربرتا ہے ۔ پھول اس کی خوبصورتی اوراس کی نرمی کو محبوب کے حسن سے ملا کربھی دیکھا گیا ہے اوراس کے مرجھا نے کو حسن کے زوال اوربے ثباتیِ زندگی کی علامت بھی بنایا گیا ہے ۔ پھول کے ساتھ کانٹوں کا کرداراوربھی دلچسپ ہے ۔ کانٹوں کونسبتاً ثبات حاصل ہے اوران کے کردارمیں دوغلہ پن نہیں ۔ ہمیں پتا ہے کہ کانٹے چھب سکتے ہیں اورتکلیف پہنچا سکتے ہیں اس لئے ان سے دوری بنائ جاسکتی ہے لیکن پھولوں کی خوبصورتی کے دھوکے میں آکرہم ان سے قربت بنا لیتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں ۔ یہاں پھول اور کانٹے مختلف انسانی کرداروں کی استعاراتی تعبیر ہیں ۔

لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں

میں نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں

نامعلوم

تجھ سے بچھڑوں تو کوئی پھول نہ مہکے مجھ میں

دیکھ کیا کرب ہے کیا ذات کی سچائی ہے

نصیر ترابی

پھول ہی پھول یاد آتے ہیں

آپ جب جب بھی مسکراتے ہیں

ساجد پریمی

مہر و مہ گل پھول سب تھے پر ہمیں

چہرئی چہرہ ہمیں بھاتا رہا

میر تقی میر

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر صدیقی

کچھ ایسے پھول بھی گزرے ہیں میری نظروں سے

جو کھل کے بھی نہ سمجھ پائے زندگی کیا ہے

آزاد گلاٹی

رنگ آنکھوں کے لیے بو ہے دماغوں کے لیے

پھول کو ہاتھ لگانے کی ضرورت کیا ہے

حفیظ میرٹھی

غم عمر مختصر سے ابھی بے خبر ہیں کلیاں

نہ چمن میں پھینک دینا کسی پھول کو مسل کر

شکیل بدایونی

ہمیشہ ہاتھوں میں ہوتے ہیں پھول ان کے لئے

کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں

انور شعور

پھولوں کو گلستاں میں کب راس بہار آئی

کانٹوں کو ملا جب سے اعجاز مسیحائی

فگار اناوی

خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو

مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی

نظیر اکبرآبادی

پتہ تھا مجھ کو ملاقات غیر ممکن ہے

سو تیرا دھیان کیا اور گلاب چوم لیا

شارق کیفی

سچ ہے احسان کا بھی بوجھ بہت ہوتا ہے

چار پھولوں سے دبی جاتی ہے تربت میری

جلیل مانک پوری

کانٹوں پہ چلے ہیں تو کہیں پھول کھلے ہیں

پھولوں سے ملے ہیں تو بڑی چوٹ لگی ہے

جاوید وششٹ

اگرچہ پھول یہ اپنے لیے خریدے ہیں

کوئی جو پوچھے تو کہہ دوں گا اس نے بھیجے ہیں

افتخار نسیم

کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں

پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں

اختر شیرانی

شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا

آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا

بشیر بدر

سنو کہ اب ہم گلاب دیں گے گلاب لیں گے

محبتوں میں کوئی خسارہ نہیں چلے گا

جاوید انور

میں نے قبول کر لیا چپ چاپ وہ گلاب

جو شاخ دے رہی تھی تری اور سے مجھے

چراغ شرما

کئی طرح کے تحائف پسند ہیں اس کو

مگر جو کام یہاں پھول سے نکلتا ہے

رانا عامر لیاقت

اسے کسی سے محبت نہ تھی مگر اس نے

گلاب توڑ کے دنیا کو شک میں ڈال دیا

دلاور علی آزر

رک گیا ہاتھ ترا کیوں باصرؔ

کوئی کانٹا تو نہ تھا پھولوں میں

باصر سلطان کاظمی

آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے

تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر

شکیب جلالی

بہار آئی گلوں کو ہنسی نہیں آئی

کہیں سے بو تری گفتار کی نہیں آئی

کالی داس گپتا رضا

کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر

پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں

شکیل بدایونی

اپنی قسمت میں سبھی کچھ تھا مگر پھول نہ تھے

تم اگر پھول نہ ہوتے تو ہمارے ہوتے

اشفاق ناصر

اس کو ہنستا دیکھ کے پھول تھے حیرت میں

وہ ہنستی تھی پھولوں کی حیرانی پر

عمار یاسر مگسی

پھولوں کو سرخی دینے میں

پتے پیلے ہو جاتے ہیں

فہمی بدایونی

چمن کا حسن سمجھ کر سمیٹ لائے تھے

کسے خبر تھی کہ ہر پھول خار نکلے گا

کالی داس گپتا رضا

ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا ہے اکثر

لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں

بسمل سعیدی

قبول کر کے اسے رابطہ بحال کرو

کہیں ی پھول مری آخری پکار نہ ہو

آشو مشرا

چاہنے والو پیار میں تھوڑی آزادی بھی لازم ہے

دیکھو میرا پھول زیادہ دیکھ بھال سے ٹوٹ گیا

مکیش عالم

میں چاہتا تھا کہ اس کو گلاب پیش کروں

وہ خود گلاب تھا اس کو گلاب کیا دیتا

افضل الہ آبادی

پھول کر لے نباہ کانٹوں سے

آدمی ہی نہ آدمی سے ملے

خمار بارہ بنکوی

پھول کھلے ہیں لکھا ہوا ہے توڑو مت

اور مچل کر جی کہتا ہے چھوڑو مت

عمیق حنفی

پھولوں کی تازگی ہی نہیں دیکھنے کی چیز

کانٹوں کی سمت بھی تو نگاہیں اٹھا کے دیکھ

اسعد بدایونی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے