Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بہانہ پر اشعار

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

شہریار

جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں

عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی

امجد اسلام امجد

بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے

ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے

مجروح سلطانپوری

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

جگر مراد آبادی

وہ پوچھتا تھا مری آنکھ بھیگنے کا سبب

مجھے بہانہ بنانا بھی تو نہیں آیا

وسیم بریلوی

یوں ہی دل نے چاہا تھا رونا رلانا

تری یاد تو بن گئی اک بہانا

ساحر لدھیانوی

ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی

ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے

عرفان صدیقی

بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا

ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا

جاوید اختر

تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں

داغؔ دہلوی

تلاش ایک بہانہ تھا خاک اڑانے کا

پتہ چلا کہ ہمیں جستجوئے یار نہ تھی

زیب غوری

شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی

زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی

ثمینہ راجہ

ستایا آج مناسب جگہ پہ بارش نے

اسی بہانے ٹھہر جائیں اس کا گھر ہے یہاں

اقبال اشہر قریشی

کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا

بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا

فانی بدایونی

پس غبار بھی اڑتا غبار اپنا تھا

ترے بہانے ہمیں انتظار اپنا تھا

عباس تابش

بہانہ مل نہ جائے بجلیوں کو ٹوٹ پڑنے کا

کلیجہ کانپتا ہے آشیاں کو آشیاں کہتے

اثر لکھنوی

سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی چھلنی ہے

ہنستا چہرہ ایک بہانا لگتا ہے

کیف بھوپالی

کبھی کبھی عرض غم کی خاطر ہم اک بہانا بھی چاہتے ہیں

جب آنسوؤں سے بھری ہوں آنکھیں تو مسکرانا بھی چاہتے ہیں

سلام ؔمچھلی شہری

جنوں کا کوئی فسانہ تو ہاتھ آنے دو

میں رو پڑوں گا بہانہ تو ہاتھ آنے دو

خالد ملک ساحل

خموشی میری لے میں گنگنانا چاہتی ہے

کسی سے بات کرنے کا بہانا چاہتی ہے

عبد الرؤف عروج

کسی کے جور و ستم کا تو اک بہانا تھا

ہمارے دل کو بہرحال ٹوٹ جانا تھا

نریش کمار شاد

اٹھایا اس نے بیڑا قتل کا کچھ دل میں ٹھانا ہے

چبانا پان کا بھی خوں بہانے کا بہانہ ہے

مردان علی خاں رانا

وہ بے خودی تھی محبت کی بے رخی تو نہ تھی

پہ اس کو ترک تعلق کو اک بہانہ ہوا

سلیم احمد

اک آدھ بار تو جاں وارنی ہی پڑتی ہے

محبتیں ہوں تو بنتا نہیں بہانہ کوئی

صابر ظفر

کوئی صدا کوئی آوازۂ جرس ہی سہی

کوئی بہانہ کہ ہم جاں نثار کرتے رہیں

کبیر اجمل

اب کسی اور طرف بات گھمانے والے

میں سمجھتی ہوں تری بات کا مطلب سمجھے

کومل جوئیہ

قاصد کو اس نے جاتے ہی رخصت کیا تھا لیک

بد ذات ماندگی کے بہانے سے رہ گیا

مصحفی غلام ہمدانی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے