Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ibn e Insha's Photo'

ابن انشا

1927 - 1978 | کراچی, پاکستان

ممتاز پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ کل چودھویں کی رات تھی‘ کے لئے مشہور

ممتاز پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ کل چودھویں کی رات تھی‘ کے لئے مشہور

ابن انشا کے اشعار

32.7K
Favorite

باعتبار

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا

کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا

اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو

پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو

کب لوٹا ہے بہتا پانی بچھڑا ساجن روٹھا دوست

ہم نے اس کو اپنا جانا جب تک ہاتھ میں داماں تھا

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے

اک ہماری سحر نہیں ہوتی

وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں

اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو

اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں

ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا

اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ

تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر

جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا

انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا

وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے

تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو

اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو

حسن سب کو خدا نہیں دیتا

ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

ہم کسی در پہ نہ ٹھٹکے نہ کہیں دستک دی

سیکڑوں در تھے مری جاں ترے در سے پہلے

گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں

اس بغیا کے بھید نہ کھولو سیر کرو خاموش رہو

اہل وفا سے ترک تعلق کر لو پر اک بات کہیں

کل تم ان کو یاد کرو گے کل تم انہیں پکارو گے

حق اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا

تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی پہ چڑھو خاموش رہو

ہم گھوم چکے بستی بن میں

اک آس کی پھانس لیے من میں

ایک سے ایک جنوں کا مارا اس بستی میں رہتا ہے

ایک ہمیں ہشیار تھے یارو ایک ہمیں بد نام ہوئے

بیکل بیکل رہتے ہو پر محفل کے آداب کے ساتھ

آنکھ چرا کر دیکھ بھی لیتے بھولے بھی بن جاتے ہو

اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے

دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے

جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے

دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا

وحشت دل کے خریدار بھی ناپید ہوئے

کون اب عشق کے بازار میں کھولے گا دکاں

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو

اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو

ایک دن دیکھنے کو آ جاتے

یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

یوں ہی تو نہیں دشت میں پہنچے یوں ہی تو نہیں جوگ لیا

بستی بستی کانٹے دیکھے جنگل جنگل پھول میاں

آن کے اس بیمار کو دیکھے تجھ کو بھی توفیق ہوئی

لب پر اس کے نام تھا تیرا جب بھی درد شدید ہوا

میرؔ سے بیعت کی ہے تو انشاؔ میر کی بیعت بھی ہے ضرور

شام کو رو رو صبح کرو اب صبح کو رو رو شام کرو

دیدہ و دل نے درد کی اپنے بات بھی کی تو کس سے کی

وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بٹائے گا

سن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ نکالی نہر

ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں

بے تیرے کیا وحشت ہم کو تجھ بن کیسا صبر و سکوں

تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے

جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے

کب کوئی لڑکی من کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے

جنم جنم کے ساتوں دکھ ہیں اس کے ماتھے پر تحریر

اپنا آپ مٹانا ہوگا یہ تحریر مٹانے میں

اے قیس جنوں پیشہ انشاؔ کو کبھی دیکھا

وحشی ہو تو ایسا ہو رسوا ہو تو ایسا ہو

کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں دیکھا نہیں پلکوں پر اکثر

یا شام غریباں کا جگنو یا صبح کا تارا ہوتا ہے

پھر ان کی گلی میں پہنچے گا پھر سہو کا سجدہ کر لے گا

اس دل پہ بھروسا کون کرے ہر روز مسلماں ہوتا ہے

یہ تو سچ ہے کہ ہم تجھے پا نہ سکے تری یاد بھی جی سے بھلا نہ سکے

ترا داغ ہے دل میں چراغ صفت ترے نام کی زیب گلو کفنی

سب کو دل کے داغ دکھائے ایک تجھی کو دکھا نہ سکے

تیرا دامن دور نہیں تھا ہاتھ ہمیں پھیلا نہ سکے

وحشت کا عنوان ہماری ان میں سے جو نار بنی

دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے انشاؔ جی دیوانے تھے

کن راہوں سے ہو کر آئی ہو کس گل کا سندیسہ لائی ہو

ہم باغ میں خوش خوش بیٹھے تھے کیا کر دیا آ کے صبا تم نے

منت قاصد کون اٹھائے شکوہ دریاں کون کرے

نامۂ شوق غزل کی صورت چھپنے کو دو اخبار کے بیچ

وہ جو تیرا داغ غلامی ماتھے پر لیے پھرتا ہے

اس کا نام تو انشاؔ ٹھہرا ناحق کو بدنام ہے چاند

سکھیوں سے کب سکھیاں اپنے جی کے بھید چھپاتی ہیں

ہم سے نہیں تو اس سے کہہ دے کرتا کہاں کلام ہے چاند

اک بات کہیں گے انشاؔ جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی

تم ایک جہاں کا علم پڑھے کوئی میرؔ سا شعر کہا تم نے

اس کو مدت ہوئی صبر کرتے ہوئے آج کوئے وفا سے گزرتے ہوئے

پوچھ کر اس گدا کا ٹھکانا سجن اپنے انشاؔ کو بھی دیکھ آنا سجن

غم عشق میں کاری دوا نہ دعا یہ ہے روگ کٹھن یہ ہے درد برا

ہم کرتے جو اپنے سے ہو سکتا کبھی ہم سے بھی کچھ نہ کہا تم نے

کوئی اور بھی مورد لطف ہوا ملی اہل ہوس کو ہوس کی سزا

ترے شہر میں تھے ہمیں اہل وفا ملی ایک ہمیں کو جلا وطنی

اب تجھ سے کس منہ سے کہہ دیں سات سمندر پار نہ جا

بیچ کی اک دیوار بھی ہم تو پھاند نہ پائے ڈھا نہ سکے

کچھ وہ جنہیں ہم سے نسبت تھی ان کوچوں میں آن آباد ہوئے

کچھ عرش پہ تارے کہلائے کچھ پھول بنے جا گلشن میں

خار و خس و خاشاک تو جانیں ایک تجھی کو خبر نہ ملے

اے گل خوبی ہم تو عبث بدنام ہوئے گلزار کے بیچ

ہم اس لمبے چوڑے گھر میں شب کو تنہا ہوتے ہیں

دیکھ کسی دن آ مل ہم سے ہم کو تجھ سے کام ہے چاند

Recitation

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے