Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

شیخ ظہور الدین حاتم

1699 - 1783 | دلی, انڈیا

شیخ ظہور الدین حاتم کے اشعار

10.6K
Favorite

باعتبار

ہم سیں مستوں کو بس ہے تیری نگاہ

صبح اٹھ کر خمار کی خاطر

میں اس کی چشم سے ایسا گرا ہوں

مرے رونے پہ ہنستا ہے مرا دل

گلشن دہر میں سو رنگ ہیں حاتمؔ اس کے

وہ کہیں گل ہے کہیں بو ہے کہیں بوٹا ہے

قیامت تک جدا ہووے نہ یارب

جنوں کے دست سے میرا گریباں

رات دن جاری ہیں کچھ پیدا نہیں ان کا کنار

میرے چشموں کا دو آبا مجمع البحرین ہے

نہیں ہے شکوہ اگر وہ نظر نہیں آتا

کسو نے دیکھی نہیں اپنی جان کی صورت

کوہ کن جاں کنی ہے مشکل کام

ورنہ بہتیرے ہیں پتھر پھوڑے

ناصح بغل میں آ کر دشمن ہوا ہمارا

جائے گا کب الٰہی مجلس سے خار دل کا

گدا کو گر قناعت ہو تو پھاٹا چیتھڑا بس ہے

وگرنہ حرص آگے تھان سو گز کا لنگوٹی ہے

جس کے منہ کی اتر گئی لوئی

غم نہیں اس کو کچھ کہو کوئی

رشتۂ عمر دراز اپنا میں کوتاہ کروں

آوے یہ تار اگر تیرے بکار دامن

تری محراب میں ابرو کی یہ خال

کدھر سے آ گیا مسجد میں ہندو

کیوں کر ان کالی بلاؤں سے بچے گا عاشق

خط سیہ خال سیہ زلف سیہ چشم سیاہ

عارض سے اس کے زلف میں کیوں کر ہے روشنی

ظلمات میں تو نام نہیں آفتاب کا

کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے

کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے

کپڑے سفید دھو کے جو پہنے تو کیا ہوا

دھونا وہی جو دل کی سیاہی کو دھوئیے

پھڑکوں تو سر پھٹے ہے نہ پھڑکوں تو جی گھٹے

تنگ اس قدر دیا مجھے صیاد نے قفس

کبھو جو شیخ دکھاؤں میں اپنے بت کے تئیں

بہ رب کعبہ تجھے حسرت حرم نہ رہے

نہ میں نے کچھ کہا تجھ سے نہ تو نے مجھ سے کچھ پوچھا

یوں ہی دن رات ملتے مجھ کو تجھ کو میری جاں گزرا

ٹوٹے دل کو بنا دکھاوے

ایسا کوئی کاری گر نہ دیکھا

کس سے کہوں میں حال دل اپنا کہ تا سنے

اس شہر میں رہا بھی کوئی درد مند ہے

زاہد کو ہم نے دیکھ خرابات میں کہا

مسجد کو اپنی چھوڑ کہو تم یہاں کہاں

کیا مدرسے میں دہر کے الٹی ہوا بہی

واعظ نہی کو امر کہے امر کو نہی

کیسر میں اس طرح سے آلودہ ہے سراپا

سنتے تھے ہم سو دیکھا تو شاخ زعفراں ہے

دل عشاق پرندوں کی طرح اڑتے ہیں

اس بیابان میں کیا ایک بھی صیاد نہیں

دوستوں سے دشمنی اور دشمنوں سے دوستی

بے مروت بے وفا بے رحم یہ کیا ڈھنگ ہے

صبر بن اور کچھ نہ لو ہم راہ

کوچۂ عشق تنگ ہے یارو

خوبان جہاں ہوں جس سے تسخیر

ایسا کوئی ہم نے ہنر نہ دیکھا

مری باتوں سے اب آزردہ نہ ہونا ساقی

اس گھڑی عقل مری مجھ سے جدا پھرتی ہے

رونے تلک تو کس کو ہے فرصت یہاں سحاب

طوفاں ہوا بھی جو ٹک اک آب دیدہ ہوں

دیکھ کر ہر عضو ان کا دل ہو پانی بہہ چلا

کھول چھاتی بے تکلف جب نہائیں باغ میں

ہستی سے تا عدم ہے سفر دو قدم کی راہ

کیا چاہیئے ہے ہم کو سر انجام کے لیے

ہم بہت دیکھے فرنگستان کے حسن صبیح

چرب ہے سب پر بتان ہند کا رنگ ملیح

دل کی لہروں کا طول و عرض نہ پوچھ

کبھو دریا کبھو سفینہ ہے

وہ وحشی اس قدر بھڑکا ہے صورت سے مرے یارو

کہ اپنے دیکھ سائے کو مجھے ہم راہ جانے ہے

الٰہی تجھ سے اب کہتا ہے حاتمؔ اس زمانے میں

شرم رکھنا بھرم رکھنا دھرم رکھنا کرم رکھنا

اتنا میں انتظار کیا اس کی راہ میں

جو رفتہ رفتہ دل مرا بیمار ہو گیا

تیرے آنے سے یو خوشی ہے دل

جوں کہ بلبل بہار کی خاطر

کوئی ہے سرخ پوش کوئی زرد پوش ہے

آ دیکھ بزم میں کہ ہوئی ہے بہار جام

وصف انکھیوں کا لکھا ہم نے گل بادام پر

کر کے نرگس کو قلم اور چشم آہو کی دوات

رہن شراب خانہ کیا شیخ حیف ہے

جو پیرہن بنایا تھا احرام کے لیے

مستوں کا دل ہے شیشہ اور سنگ دل ہے ساقی

اچرج ہے جو نہ ٹوٹے پتھر سے آبگینہ

تری نگہ سے گئے کھل کواڑ چھاتی کے

حصار قلب کی گویا تھی فتح تیرے نام

بس نہیں چلتا جو اس دم ان کے اوپر گر پڑے

عاشق و معشوق کو جب ایک جا پاتا ہے چرخ

سنو ہندو مسلمانو کہ فیض عشق سے حاتمؔ

ہوا آزاد قید مذہب و مشرب سے اب فارغ

جا بھڑاتا ہے ہمیشہ مجھے خوں خواروں سے

دل بغل بیچ مرا دشمن جاں ہے گویا

فانوس تن میں دیکھ لے روشن ہیں جوں چراغ

جو داغ دل پہ عشق میں تیرے دیے ہیں ہم

حاجت چراغ کی ہے کب انجمن میں دل کے

مانند شمع روشن ہر ایک استخواں ہے

کبھو پہنچی نہ اس کے دل تلک رہ ہی میں تھک بیٹھی

بجا اس آہ بے تاثیر پر تاثیر ہنستی ہے

شمع ہر شام تیرے رونے پر

صبح دم تک چراغ ہنستا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے