Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Haidar Ali Aatish's Photo'

حیدر علی آتش

1778 - 1847 | لکھنؤ, انڈیا

مرزا غالب کے ہم عصر، انیسویں صدی کی اردو غزل کا روشن ستارہ

مرزا غالب کے ہم عصر، انیسویں صدی کی اردو غزل کا روشن ستارہ

حیدر علی آتش کے اشعار

38.8K
Favorite

باعتبار

گل آتے ہیں ہستی میں عدم سے ہمہ تن گوش

بلبل کا یہ نالہ نہیں افسانہ ہے اس کا

کچھ نظر آتا نہیں اس کے تصور کے سوا

حسرت دیدار نے آنکھوں کو اندھا کر دیا

ٹھیک آئی تن پہ اپنے قبائے برہنگی

بانی لباس چھوٹے ہوئے یا بڑے ہوئے

سوائے رنج کچھ حاصل نہیں ہے اس خرابے میں

غنیمت جان جو آرام تو نے کوئی دم پایا

پا بہ گل بے خودیٔ شوق سے میں رہتا تھا

کوچۂ یار میں حالت مری دیوار کی تھی

ہمارا کعبۂ مقصود تیرا طاق ابرو ہے

تری چشم سیہ کو ہم نے آہوئے حرم پایا

آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت

بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے

دنیا و آخرت میں طلب گار ہیں ترے

حاصل تجھے سمجھتے ہیں دونوں جہاں میں ہم

عدم سے دہر میں آنا کسے گوارا تھا

کشاں کشاں مجھے لائی ہے آرزو تیری

کفر و اسلام کی کچھ قید نہیں اے آتشؔ

شیخ ہو یا کہ برہمن ہو پر انساں ہووے

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم

اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

آدمی کیا وہ نہ سمجھے جو سخن کی قدر کو

نطق نے حیواں سے مشت خاک کو انساں کیا

میں وہ غم دوست ہوں جب کوئی تازہ غم ہوا پیدا

نہ نکلا ایک بھی میرے سوا امید واروں میں

یہ دل لگانے میں میں نے مزا اٹھایا ہے

ملا نہ دوست تو دشمن سے اتحاد کیا

چھٹ پٹا وقت ہے بہتا ہوا دریا ٹھہرا

صبح سے شام ہوئی دل نہ ہمارا ٹھہرا

دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر

دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا

کوچۂ یار میں ہو روشنی اپنے دم کی

کعبہ و دیر کریں گبر و مسلماں آباد

وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا

سیکڑوں کوس نہیں صورت انساں پیدا

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے

ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے

تشریح

یہ آتش کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ آرزو کے معنی تمنا، روبرو کے معنی آمنے سامنے، بے تاب کے معنی بے قرار ہے۔ بلبل بے تاب یعنی وہ بلبل جو بے قرار ہو جسے چین نہ ہو۔

اس شعر کا قریب کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہمیں یہ تمنا تھی کہ ہم اے محبوب تجھے گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو بے چین ہے اس سے بات چیت کرتے۔

لیکن اس میں در اصل شاعر یہ کہتا ہے کہ ہم نے ایک تمنا کی تھی کہ ہم اپنے محبوب کو پھول کے سامنے بٹھاتے اور پھر بلبل جو گل کے عشق میں بے تاب ہے اس سے گفتگو کرتے۔ مطلب یہ کہ ہماری خواہش تھی کہ ہم اپنے گل جیسے چہرے والے محبوب کو گل کے سامنے بٹھاتے اور پھر اس بلبل سے جو گل کے حسن کی وجہ سے اس کا دیوانہ بن گیا ہے اس سے گفتگو کرتے یعنی بحث کرتے اور پوچھتے کہ اے بلبل اب بتا کون خوبصورت ہے، تمہارا گل یا میرا محبوب۔ ظاہر ہے اس بات پر بحث ہوتی اور آخر پر بلبل جو گل کے حسن میں دیوانہ ہوگیا اگر میرے محبوب کے جمال کو دیکھے گا تو گل کی تعریف میں چہچہانا بھول جائے گا۔

شفق سوپوری

بستیاں ہی بستیاں ہیں گنبد افلاک میں

سیکڑوں فرسنگ مجنوں سے بیاباں رہ گیا

جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں

صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

ایسی اونچی بھی تو دیوار نہیں گھر کی ترے

رات اندھیری کوئی آوے گی نہ برسات میں کیا

اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے

اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے

پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

عجب تیری ہے اے محبوب صورت

نظر سے گر گئے سب خوب صورت

آتش مست جو مل جائے تو پوچھوں اس سے

تو نے کیفیت اٹھائی ہے خرابات میں کیا

نہ پاک ہوگا کبھی حسن و عشق کا جھگڑا

وہ قصہ ہے یہ کہ جس کا کوئی گواہ نہیں

اس بلائے جاں سے آتشؔ دیکھیے کیوں کر بنے

دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

مہندی لگانے کا جو خیال آیا آپ کو

سوکھے ہوئے درخت حنا کے ہرے ہوئے

کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی

حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا

کوئی بت خانہ کو جاتا ہے کوئی کعبہ کو

پھر رہے گبر و مسلماں ہیں تری گھات میں کیا

خدا دراز کرے عمر چرخ نیلی کی

یہ بیکسوں کے مزاروں کا شامیانہ ہے

بعد فرہاد کے پھر کوہ کنی میں نے کی

بعد مجنوں کے کیا میں نے بیاباں آباد

لباس کعبہ کا حاصل کیا شرف اس نے

جو کوئے یار میں کالی کوئی گھٹا آئی

کون سے دن ہاتھ میں آیا مرے دامان یار

کب زمین و آسماں کا فاصلہ جاتا رہا

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا

رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا

قید مذہب کی گرفتاری سے چھٹ جاتا ہے

ہو نہ دیوانہ تو ہے عقل سے انساں خالی

قد میں تو کر چکا تھا وہ احمق برابری

مجبور سرو کو تری رفتار نے کیا

شیریں کے شیفتہ ہوئے پرویز و کوہ کن

شاعر ہوں میں یہ کہتا ہوں مضمون لڑ گیا

ہر شب شب برات ہے ہر روز روز عید

سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کے

مجھ میں اور شمع میں ہوتی تھی یہ باتیں شب ہجر

آج کی رات بچیں گے تو تو سحر دیکھیں گے

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے

فصل بہار آئی پیو صوفیو شراب

بس ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائیے

کوئی تو دوش سے بار سفر اتارے گا

ہزاروں راہزن امیدوار راہ میں ہے

آسمان اور زمیں کا ہے تفاوت ہر چند

اے صنم دور ہی سے چاند سا مکھڑا دکھلا

اے فلک کچھ تو اثر حسن عمل میں ہوتا

شیشہ اک روز تو واعظ کے بغل میں ہوتا

ترے ابروئے پیوستہ کا عالم میں فسانہ ہے

کسی استاد شاعر کا یہ بیت عاشقانہ ہے

نہ جب تک ہم پیالہ ہو کوئی میں مے نہیں پیتا

نہیں مہماں تو فاقہ ہے خلیل اللہ کے گھر میں

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے