Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Akhtar Shirani's Photo'

اختر شیرانی

1905 - 1948 | لاہور, پاکستان

مقبول ترین اردو شاعروں میں شامل ، شدید رومانی شاعری کے لئے مشہور

مقبول ترین اردو شاعروں میں شامل ، شدید رومانی شاعری کے لئے مشہور

اختر شیرانی کے اشعار

باعتبار

کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں

پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں

چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے

بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ

یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا

اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے

اٹھتے نہیں ہیں اب تو دعا کے لیے بھی ہاتھ

کس درجہ ناامید ہیں پروردگار سے

عشق کو نغمۂ امید سنا دے آ کر

دل کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا دے آ کر

کسی مغرور کے آگے ہمارا سر نہیں جھکتا

فقیری میں بھی اخترؔ غیرت شاہانہ رکھتے ہیں

بھلا بیٹھے ہو ہم کو آج لیکن یہ سمجھ لینا

بہت پچھتاؤ گے جس وقت ہم کل یاد آئیں گے

ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے

دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا

تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا

کیا بتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا

تھک گئے ہم کرتے کرتے انتظار

اک قیامت ان کا آنا ہو گیا

چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بود و باش اچھی

بہار آ کر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی

اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب

عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا

وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی

ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا

رات بھر ان کا تصور دل کو تڑپاتا رہا

ایک نقشہ سامنے آتا رہا جاتا رہا

جو بھی برا بھلا ہے اللہ جانتا ہے

بندے کے دل میں کیا ہے اللہ جانتا ہے

کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں

اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

پارسائی کی جواں مرگی نہ پوچھ

توبہ کرنی تھی کہ بدلی چھا گئی

اب وہ باتیں نہ وہ راتیں نہ ملاقاتیں ہیں

محفلیں خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا

اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم

نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں

مبارک مبارک نیا سال آیا

خوشی کا سماں ساری دنیا پہ چھایا

اب تو ملیے بس لڑائی ہو چکی

اب تو چلئے پیار کی باتیں کریں

خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں

ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر

آج تک تیرے خطوں سے تری خوشبو نہ گئی

مدتیں ہو گئیں بچھڑے ہوئے تم سے لیکن

آج تک دل سے مرے یاد تمہاری نہ گئی

لانڈری کھولی تھی اس کے عشق میں

پر وہ کپڑے ہم سے دھلواتا نہیں

کچھ اس طرح سے یاد آتے رہے ہو

کہ اب بھول جانے کو جی چاہتا ہے

پلٹ سی گئی ہے زمانے کی کایا

نیا سال آیا نیا سال آیا

اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے

وہ عمر کیا ہوئی وہ زمانے کدھر گئے

اک وہ کہ آرزؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر

اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو!

دل میں لیتا ہے چٹکیاں کوئی

ہائے اس درد کی دوا کیا ہے

کس کو فرصت تھی زمانے کے ستم سہنے کی

گر نہ اس شوخ کی آنکھوں کا اشارا ہوتا

تمناؤں کو زندہ آرزوؤں کو جواں کر لوں

یہ شرمیلی نظر کہہ دے تو کچھ گستاخیاں کر لوں

مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب

لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں

محبت کے اقرار سے شرم کب تک

کبھی سامنا ہو تو مجبور کر دوں

غم عاقبت ہے نہ فکر زمانہ

پئے جا رہے ہیں جئے جا رہے ہیں

اس طرح ریل کے ہم راہ رواں ہے بادل

ساتھ جیسے کوئی اڑتا ہوا مے خانہ چلے

ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا

وہ وفائیں کرنے والے بے وفا کیوں ہو گئے

یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو

میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو

مجھے دونوں جہاں میں ایک وہ مل جائیں گر اخترؔ

تو اپنی حسرتوں کو بے نیاز دو جہاں کر لوں

کیا ہے آنے کا وعدہ تو اس نے

مرے پروردگار آئے نہ آئے

سوئے کلکتہ جو ہم بہ دل دیوانہ چلے

گنگناتے ہوئے اک شوخ کا افسانہ چلے

ہے قیامت ترے شباب کا رنگ

رنگ بدلے گا پھر زمانے کا

مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن

تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے

عمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں

ہائے وہ راتیں کہ جو خواب پریشاں ہو گئیں

کوچۂ حسن چھٹا تو ہوئے رسوائے شراب

اپنی قسمت میں جو لکھی تھی وہ خواری نہ گئی

بجا کہ ہے پاس حشر ہم کو کریں گے پاس شباب پہلے

حساب ہوتا رہے گا یا رب ہمیں منگا دے شراب پہلے

ان کو الفت ہی سہی اغیار سے

ہم سے کیوں اغیار کی باتیں کریں

Recitation

بولیے