Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Arzoo Lakhnavi's Photo'

آرزو لکھنوی

1873 - 1951 | کراچی, پاکستان

ممتاز قبل از جدید شاعر،جگر مرادآبادی کے معاصر

ممتاز قبل از جدید شاعر،جگر مرادآبادی کے معاصر

آرزو لکھنوی کے اشعار

33.3K
Favorite

باعتبار

یہ گل کھل رہا ہے وہ مرجھا رہا ہے

اثر دو طرح کے ہوا ایک ہی ہے

ہے محبت ایسی بندھی گرہ جو نہ ایک ہاتھ سے کھل سکے

کوئی عہد توڑے کرے دغا مرا فرض ہے کہ وفا کروں

خزاں کا بھیس بنا کر بہار نے مارا

مجھے دورنگئ لیل و نہار نے مارا

کس کام کی ایسی سچائی جو توڑ دے امیدیں دل کی

تھوڑی سی تسلی ہو تو گئی مانا کہ وہ بول کے جھوٹ گیا

مخرب کار ہوئی جوش میں خود عجلت کار

پیچھے ہٹ جائے گی منزل مجھے معلوم نہ تھا

ایک دل پتھر بنے اور ایک دل بن جائے موم

آخر اتنا فرق کیوں تقسیم آب و گل میں ہے

وحشت ہم اپنی بعد فنا چھوڑ جائیں

اب تم پھرو گے چاک گریباں کئے ہوئے

روکا تھا دم بھر لہراتا آنسو

آ آ گیا ہے دانتوں پسینہ

بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں

پہلے آتا تھا اب نہیں آتا

جو دل رکھتے ہیں سینے میں وہ کافر ہو نہیں سکتے

محبت دین ہوتی ہے وفا ایمان ہوتی ہے

اپنی اپنی گردش رفتار پوری کر تو لیں

دو ستارے پھر کسی دن ایک جا ہو جائیں گے

خالی نہ عندلیب کا سوز نفس گیا

وہ لو چلی کہ رنگ گلوں کا جھلس گیا

جس قدر نفرت بڑھائی اتنی ہی قربت بڑھی

اب جو محفل میں نہیں ہے وہ تمہارے دل میں ہے

جتنے حسن آباد میں پہونچے ہوش و خرد کھو کر پہونچے

مال بھی تو اتنے کا نہیں اب جتنا کچھ محصول پڑا

دوست نے دل کو توڑ کے نقش وفا مٹا دیا

سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا

دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے

الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

میر محفل نہ ہوئے گرمئ محفل تو ہوئے

شمع تاباں نہ سہی جلتا ہوا دل تو ہوئے

وفا تم سے کریں گے دکھ سہیں گے ناز اٹھائیں گے

جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

دو تند ہواؤں پر بنیاد ہے طوفاں کی

یا تم نہ حسیں ہوتے یا میں نہ جواں ہوتا

یہ زورا زوری عشق کی تھی فطرت ہی جس نے بدل ڈالی

جلتا ہوا دل ہو کر پانی آنسو بن جانا کیا جانے

اللہ اللہ حسن کی یہ پردہ داری دیکھیے

بھید جس نے کھولنا چاہا وہ دیوانہ ہوا

سینے میں ضبط غم سے چھالا ابھر رہا ہے

شعلے کو بند کر کے پانی بنا رہے ہیں

پھیل گئی بالوں میں سپیدی چونک ذرا کروٹ تو بدل

شام سے غافل سونے والے دیکھ تو کتنی رات رہی

لالچ بھری محبت نظروں سے گر نہ جائے

بد اعتقاد دل کی جھوٹی نماز ہو کر

ہماری ناکامیٔ وفا نے زمانے کی کھول دی ہیں آنکھیں

چراغ کب کا بجھا پڑا ہے مگر اندھیرا کہیں نہیں ہے

نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف

ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی

کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا

فضا محدود کب ہے اے دل وحشی فلک کیسا

نلاہٹ ہے نظر کی دیکھتے ہیں جو نگاہوں سے

دھارے سے کبھی کشتی نہ ہٹی اور سیدھی گھاٹ پر آ پہنچی

سب بہتے ہوئے دریاؤں کے کیا دو ہی کنارے ہوتے ہیں

چٹکی جو کلی کوئل کوکی الفت کی کہانی ختم ہوئی

کیا کس نے کہی کیا تو نے سنی یہ بات زمانہ کیا جانے

ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر

اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی

کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا

وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا

حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے

شمع کی شعلہ جب لہرائی اڑ کے چلا پروانہ بھی

جواب دینے کے بدلے وہ شکل دیکھتے ہیں

یہ کیا ہوا میرے چہرے کو عرض حال کے بعد

ہم کو اتنا بھی رہائی کی خوشی میں نہیں ہوش

ٹوٹی زنجیر کہ خود پاؤں ہمارا ٹوٹا

خموش جلنے کا دل کے کوئی گواہ نہیں

کہ شعلہ سرخ نہیں ہے دھواں سیاہ نہیں

ہلکا تھا ندامت سے سرمایہ عبادت کا

اک قطرے میں بہہ نکلے تسبیح کے سو دانے

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی

رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی

وہ قصۂ درد آگیں چپ کر دیا تھا جس نے

تم سے نہ سنا جاتا مجھ سے نہ بیاں ہوتا

کم جو ٹھہرے جفا سے میری وفا

تو یہ پاسنگ ہے ترازو کا

ہر سانس ہے اک نغمہ ہر نغمہ ہے مستانہ

کس درجہ دکھے دل کا رنگین ہے افسانہ

ہر اک شام کہتی ہے پھر صبح ہوگی

اندھیرے میں سورج نظر آ رہا ہے

دکھ وہ دیتا ہے اس پہ ہے یہ حال

لینے جاتا ہوں جب نہیں آتا

شوق چڑھتی دھوپ جاتا وقت گھٹتی چھاؤں ہے

با وفا جو آج ہیں کل بے وفا ہو جائیں گے

آرزوؔ جام لو جھجک کیسی

پی لو اور دہشت گناہ گئی

سکون دل نہیں جس وقت سے اس بزم میں آئے

ذرا سی چیز گھبراہٹ میں کیا جانے کہاں رکھ دی

کہہ کے یہ اور کچھ کہا نہ گیا

کہ مجھے آپ سے شکایت ہے

جذب نگاہ شعبدہ گر دیکھتے رہے

دنیا انہیں کی تھی وہ جدھر دیکھے رہے

حسرتوں کا دل سے قبضہ اٹھ گیا

غاصبوں کی حکمرانی ختم ہے

اس چھیڑ میں بنتے ہیں ہشیار بھی دیوانے

لہرایا جہاں شعلہ اندھے ہوئے پروانے

Recitation

بولیے