سچ پر اشعار
عام زندگی میں سچ اور
جھوٹ کی کیا منطق ہے ،سچ بولنا کتنا مشکل ہوتا ہے اور اس کے کیا خسارے ہوتے ہیں ،جھوٹ بظاہر کتنا طاقت ور اوراثر انداز ہوتا ہے ان سب باتوں کو شاعری میں کثرت سے موضوع بنایا گیا ہے ۔ ہمارے اس انتخاب میں جھوٹ، سچ اور ان کے ارد گرد پھیلے ہوئے معاملات کی کتھا پڑھئے۔
ہر حقیقت ہے ایک حسن حفیظؔ
اور ہر حسن اک حقیقت ہے
ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوع : وعدہ
میں سچ تو بولتا ہوں مگر اے خدائے حرف
تو جس میں سوچتا ہے مجھے وہ زبان دے
آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں
وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں
سچ کے سودے میں نہ پڑنا کہ خسارا ہوگا
جو ہوا حال ہمارا سو تمہارا ہوگا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
-
موضوع : ہار
جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا
عشق میں کون بتا سکتا ہے
کس نے کس سے سچ بولا ہے
-
موضوعات : اداسیاور 2 مزید
رات کو رات کہہ دیا میں نے
سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا
کہئے جو جھوٹ تو ہم ہوتے ہیں کہہ کے رسوا
سچ کہئے تو زمانہ یارو نہیں ہے سچ کا
وہ کم سخن تھا مگر ایسا کم سخن بھی نہ تھا
کہ سچ ہی بولتا تھا جب بھی بولتا تھا بہت
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
-
موضوع : واعظ
کچھ لوگ جو خاموش ہیں یہ سوچ رہے ہیں
سچ بولیں گے جب سچ کے ذرا دام بڑھیں گے
جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے
وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں
صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
واقعہ کچھ بھی ہو سچ کہنے میں رسوائی ہے
کیوں نہ خاموش رہوں اہل نظر کہلاؤں
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں
تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ
-
موضوع : وفا
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیئے
زہر میٹھا ہو تو پینے میں مزا آتا ہے
بات سچ کہیے مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے