اصغر گونڈوی کے اشعار
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
-
موضوع : ترغیبی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پہلی نظر بھی آپ کی اف کس بلا کی تھی
ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لیے ہوئے
-
موضوع : نگاہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
-
موضوع : زلف
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے
-
موضوع : مے کدہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عکس کس چیز کا آئینۂ حیرت میں نہیں
تیری صورت میں ہے کیا جو میری صورت میں نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
تشریح
کسی بھی شعر کی خوبصورتی اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ کس قدر برجستگی کے ساتھ کہا گیا ہے۔ شعر جہاں تصنع یا آورد کا شکار ہوا، وہیں اس کا حسن ختم ہوجاتا ہے۔ مذکورہ شعر میں کمال کی برجستگی ہے، کچھ بھی تصنع آمیز نہیں، ایک فطری انداز اور رویہ ہے۔
یوں تو یہ شعر تمثیل کا ہے اور یہی اس شعر کے دونوں مصرعوں میں ہے بھی، لیکن اس سے پرے کچھ اور ہے جو اس شعر کے حسن میں اصلا اضافے کا سبب ہے۔ پہلے مصرعے میں جان پڑنے کا محاورہ اور دوسرے مصرعے میں لب کشا ہونے کا محاورہ ۔ جان پڑنے کا سیدھا سادہ مطلب ہے تازگی آنا، رونق بڑھ جانا، کلیجہ ٹھنڈا ہونا وغیرہ ۔ یہ محاورہ عموماً کچھ اس طرح استعمال ہوتا ہے کہ فلاں کے محفل میں آنے سے جان پڑ گئی، بارش ہوئی تو سوکھی زمینوں میں جان پڑ گئی، دوا پڑتے ہی مرجھائے ہوئے پتوں میں جان پڑ گئی وغیرہ ۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو اس میں سبب اور مسبب دونوں کام کر رہا ہے یہ اور بات کہ یہاں مجاز مرسل کا کوئی قضیہ نہیں ہے۔ یہاں بطور شرط اور مشروط ہے۔ اسی سے محبوب کے مسکراہٹ کی تمیز ہوسکتی تھی، اسی سے بتایا جاسکتا تھا کہ اس کی مسکراہٹ میں دلکشی کیوں ہے۔ مسکراتا تو ہر کوئی ہے مگر شاعر بتا رہا ہے کہ اس کا انداز جداگانہ کیوں ہے اگر یوں نہیں ہوتا تو کلیوں میں جان نہیں پڑتی۔ عام طور پر تمیز کے لیے موازنہ ، تقابل اور تفضیل کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن یہاں شاعر کی یہی انفرادیت ہے کہ اس نے ان سب کے بجائے محبوب کے مسکراہٹ کی تمیز کے لیے ایک الگ راستہ نکال لیا۔
لب کشا ہونا یہاں بطور محاورہ استعمال ہوا ہے۔ محاورے کی شناخت یہی ہوتی ہے کہ وہ فعل پر ختم ہوتا ہے اور اپنے مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے یہاں یہ شرائط موجود ہیں۔ اسی لیے لب کشا ہونے کا مفہوم صرف ہونٹ ہلانا یا کھولنا نہیں ہے بلکہ گفتگو کرنا اور بات کرنا ہے وگرنہ گلستان بنانے کا تصور، تصور ہی رہ جائے گا۔معنی کے اعتبار سے یہاں سیاقاً ایک اور قرینہ موجود ہے جسے آپ مجاز مرسل سے تعیبر کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں لب کشا یعنی سبب بول کر گفتگو یعنی مسبب مراد لیا گیا ہے۔ لفظ بنا دیا تو ایک طرح سے اعلانیہ اظہار ہے کہ یہاں مسبب موجود ہے کیونکہ کچھ بھی بنادینے کا تصور صرف مسبب سے ہی وابستہ ہوسکتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم گلستان بنا دینے کا مفہوم صرف یوں سمجھتے ہیں کہ اس نے گفتگو کی تو الفاظ کے اس قدر پھول بکھیرے کہ گلستان بن گیا مگر بات صرف اتنی نہیں ہے۔ ہر گفتگو کے لیے سماعت درکار ہوتی ہے اور محبوب بات کرے تو ہجوم لگنا بدیہی ہے یہی اصل اشارہ ہے۔ ورنہ محض گلستان بنا دینا گفتگو کا تو کوئی خاصہ نہیں۔ عام طور پر دیکھیں گے کہ اس طرح کے جتنے اشعار جہاں لب کشا ہونے کا تصور ہے ان میں بین السطور ہجوم کا معنی پوشیدہ ہوتا ہے جیسے علامہ اقبال کا یہ شعر:
کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تُو
لب کُشا ہو جا، سرودِ بربطِ عالم ہے تُو
سرود بربط عالم کا بین السطور کیا کہہ رہا ہے۔؟
سیف ازہر
-
موضوع : مسکراہٹ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جینا بھی آ گیا مجھے مرنا بھی آ گیا
پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا
ہوتا ہے راز عشق و محبت انہیں سے فاش
آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں
وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے
کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے
-
موضوع : بیدار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتا آزاد ہوتا ہے
-
موضوع : حوصلہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مائل شعر و غزل پھر ہے طبیعت اصغرؔ
ابھی کچھ اور مقدر میں ہے رسوا ہونا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے
چھٹ جائے اگر دامن کونین تو کیا غم
لیکن نہ چھٹے ہاتھ سے دامان محمد
مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں
زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا
ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں
-
موضوع : وقت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہیں دیر و حرم سے کام ہم الفت کے بندے ہیں
وہی کعبہ ہے اپنا آرزو دل کی جہاں نکلے
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں تھا
اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے
ہم مر کے کیا کریں گے کیا کر لیا ہے جی کے
اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موج زندگی
جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں
میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ آستان یار ہے صحن حرم نہیں
جب رکھ دیا ہے سر تو اٹھانا نہ چاہیئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو
پائی ہے میں نے خواب کی تعبیر خواب میں
لوگ مرتے بھی ہیں جیتے بھی ہیں بیتاب بھی ہیں
کون سا سحر تری چشم عنایت میں نہیں
-
موضوع : زندگی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں
ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلووں کے اژدحام نے حیراں بنا دیا
-
موضوع : دیدار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
داستاں ان کی اداؤں کی ہے رنگیں لیکن
اس میں کچھ خون تمنا بھی ہے شامل اپنا
اصغرؔ حریم عشق میں ہستی ہی جرم ہے
رکھنا کبھی نہ پاؤں یہاں سر لئے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عارض نازک پہ ان کے رنگ سا کچھ آ گیا
ان گلوں کو چھیڑ کر ہم نے گلستاں کر دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھ کو خبر رہی نہ رخ بے نقاب کی
ہے خود نمود حسن میں شان حجاب کی
وہ شورشیں نظام جہاں جن کے دم سے ہے
جب مختصر کیا انہیں انساں بنا دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لذت سجدۂ ہائے شوق نہ پوچھ
ہائے وہ اتصال ناز و نیاز
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بے محابا ہو اگر حسن تو وہ بات کہاں
چھپ کے جس شان سے ہوتا ہے نمایاں کوئی
قہر ہے تھوڑی سی بھی غفلت طریق عشق میں
آنکھ جھپکی قیس کی اور سامنے محمل نہ تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے
روداد چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں
جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں زاہد
بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں
کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے
ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لیے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار
نالوں میں رسائی ہے نہ آہوں میں اثر ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس جلوہ گاہ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
ایسا حجاب چشم تماشا کہیں جسے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا کیا ہیں درد عشق کی فتنہ طرازیاں
ہم التفات خاص سے بھی بد گماں رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بستر خاک پہ بیٹھا ہوں نہ مستی ہے نہ ہوش
ذرے سب ساکت و صامت ہیں ستارہ خاموش
یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے ذرہ میں بیاباں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ