یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے ذرہ میں بیاباں ہے
ہے عشق کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے فردوس بہ داماں ہے
ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے وہ رنگ گلستاں ہے
پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی
پھر قطرۂ شبنم میں ہنگامۂ طوفاں ہے
اے پیکر محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدۂ حیراں ہے
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے
اک شورش بے حاصل اک آتش بے پردا
آفت کدۂ دل میں اب کفر نہ ایماں ہے
دھوکا ہے یہ نظروں کا بازیچہ ہے لذت کا
جو کنج قفس میں تھا وہ اصل گلستاں ہے
اک غنچۂ افسردہ یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موجزنی خوں کی رنگینئ پیکاں ہے
یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوش تبسم ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر اک برق سی لرزاں ہے
اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.