حفیظ بنارسی کے اشعار
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
ایک سیتا کی رفاقت ہے تو سب کچھ پاس ہے
زندگی کہتے ہیں جس کو رام کا بن باس ہے
گمشدگی ہی اصل میں یارو راہ نمائی کرتی ہے
راہ دکھانے والے پہلے برسوں راہ بھٹکتے ہیں
چلے چلیے کہ چلنا ہی دلیل کامرانی ہے
جو تھک کر بیٹھ جاتے ہیں وہ منزل پا نہیں سکتے
کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت
خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے
کبھی خرد کبھی دیوانگی نے لوٹ لیا
طرح طرح سے ہمیں زندگی نے لوٹ لیا
وفا نظر نہیں آتی کہیں زمانے میں
وفا کا ذکر کتابوں میں دیکھ لیتے ہیں
جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں
قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں
-
موضوع : نقاب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تدبیر کے دست رنگیں سے تقدیر درخشاں ہوتی ہے
قدرت بھی مدد فرماتی ہے جب کوشش انساں ہوتی ہے
میں نے آباد کیے کتنے ہی ویرانے حفیظؔ
زندگی میری اک اجڑی ہوئی محفل ہی سہی
عشق میں معرکۂ قلب و نظر کیا کہئے
چوٹ لگتی ہے کہیں درد کہیں ہوتا ہے
یہ کس مقام پہ لائی ہے زندگی ہم کو
ہنسی لبوں پہ ہے سینے میں غم کا دفتر ہے
-
موضوع : غم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس دشمن وفا کو دعا دے رہا ہوں میں
میرا نہ ہو سکا وہ کسی کا تو ہو گیا
سمجھ کے آگ لگانا ہمارے گھر میں تم
ہمارے گھر کے برابر تمہارا بھی گھر ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر حقیقت ہے ایک حسن حفیظؔ
اور ہر حسن اک حقیقت ہے
کسی کا گھر جلے اپنا ہی گھر لگے ہے مجھے
وہ حال ہے کہ اجالوں سے ڈر لگے ہے مجھے
کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے
دنیا ہے تری زلف گرہ گیر نہیں ہے
حصار ذات کے دیوار و در میں قید رہے
تمام عمر ہم اپنے ہی گھر میں قید رہے
وہ بات حفیظؔ اب نہیں ملتی کسی شے میں
جلووں میں کمی ہے کہ نگاہوں میں کمی ہے
آسان نہیں مرحلۂ ترک وفا بھی
مدت ہوئی ہم اس کو بھلانے میں لگے ہیں
اس سے بڑھ کر کیا ملے گا اور انعام جنوں
اب تو وہ بھی کہہ رہے ہیں اپنا دیوانہ مجھے
اک حسن تصور ہے جو زیست کا ساتھی ہے
وہ کوئی بھی منزل ہو ہم لوگ نہیں تنہا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ