مفلسی پر اشعار
مفلسی سے شاید آپ نہ
گزرے ہوں لیکن انسانی سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کا احساس تو کرسکتے ہیں ۔ اگر کر سکتے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مفلسی کس قدر جاں سوز ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایک مفلس آدمی کے تئیں سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے وہ کس طرح سماجی علیحیدگی کا دکھ جھیلتا ہے ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب مفلس اور مفلسی کے مسائل پر ایک تخلیقی مکالمہ ہے آپ اسے پڑھئے اور زندگی کا نیا شعور حاصل کیجئے ۔
گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
-
موضوع : ماں
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
-
موضوعات : بچپن شاعریاور 1 مزید
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
-
موضوعات : سوالاور 1 مزید
وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے
گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
-
موضوع : بچپن شاعری
آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر
آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو
-
موضوعات : سردیاور 1 مزید
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
-
موضوعات : شہراور 1 مزید
شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو
اس کے ہاتھ میں غبارے تھے پھر بھی بچا گم صم تھا
وہ غبارے بیچ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا
بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
-
موضوع : ماں
غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ
مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے
-
موضوع : غم
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
-
موضوع : مشہور اشعار
اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا
-
موضوع : بچپن شاعری
کھلونوں کی دکانو راستا دو
مرے بچے گزرنا چاہتے ہیں
-
موضوع : بچپن شاعری
کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ
پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے
غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا
ہٹو کاندھے سے آنسو پونچھ ڈالو وہ دیکھو ریل گاڑی آ رہی ہے
میں تم کو چھوڑ کر ہرگز نہ جاتا غریبی مجھ کو لے کر جا رہی ہے
مفلسوں کی زندگی کا ذکر کیا
مفلسی کی موت بھی اچھی نہیں
جرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن
پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو
مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے
گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں
میں ظفرؔ تا زندگی بکتا رہا پردیس میں
اپنی گھر والی کو اک کنگن دلانے کے لیے
اپنی غربت کی کہانی ہم سنائیں کس طرح
رات پھر بچہ ہمارا روتے روتے سو گیا
بے زری فاقہ کشی مفلسی بے سامانی
ہم فقیروں کے بھی ہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے
جب آیا عید کا دن گھر میں بے بسی کی طرح
تو میرے پھول سے بچوں نے مجھ کو گھیر لیا
-
موضوع : عید
دنیا میں غریبوں کو دو کام ہی آتے ہیں
کھانے کے لیے جینا جینے کے لیے کھانا
اب زمینوں کو بچھائے کہ فلک کو اوڑھے
مفلسی تو بھری برسات میں بے گھر ہوئی ہے
غریبوں پر تو موسم بھی حکومت کرتے رہتے ہیں
کبھی بارش کبھی گرمی کبھی ٹھنڈک کا قبضہ ہے
بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں میں
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے
مفلسی سیں اب زمانے کا رہا کچھ حال نئیں
آسماں چرخی کے جوں پھرتا ہے لیکن مال نئیں
مفلسی میں مزاج شاہانہ
کس مرض کی دوا کرے کوئی
ہم حسین غزلوں سے پیٹ بھر نہیں سکتے
دولت سخن لے کر بے فراغ ہیں یارو
دوشالہ شال کشمیری امیروں کو مبارک ہو
گلیم کہنہ میں جاڑا فقیروں کا بسر ہوگا
دیو پری کے قصے سن کر
بھوکے بچے سو لیتے ہیں
چمن میں خشک سالی پر ہے خوش صیاد کہ اب خود
پرندے پیٹ کی خاطر اسیر دام ہوتے ہیں
-
موضوع : صیاد