Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Azhar Inayati's Photo'

اظہر عنایتی

1946 | رام پور, انڈیا

رام پور دبستان کے اہم شاعر/ محشر عنایتی کے شاگرد

رام پور دبستان کے اہم شاعر/ محشر عنایتی کے شاگرد

اظہر عنایتی کے اشعار

13.9K
Favorite

باعتبار

ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے

میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے

یہ اور بات کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں

مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے

اپنی تصویر بناؤ گے تو ہوگا احساس

کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا

غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے

مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے

شکستگی میں بھی کیا شان ہے عمارت کی

کہ دیکھنے کو اسے سر اٹھانا پڑتا ہے

راستو کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے

میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے

یہ الگ بات کہ میں نوح نہیں تھا لیکن

میں نے کشتی کو غلط سمت میں بہنے نہ دیا

کسی کے عیب چھپانا ثواب ہے لیکن

کبھی کبھی کوئی پردہ اٹھانا پڑتا ہے

پرانے عہد میں بھی دشمنی تھی

مگر ماحول زہریلا نہیں تھا

سنبھل کے چلنے کا سارا غرور ٹوٹ گیا

اک ایسی بات کہی اس نے لڑکھڑاتے ہوئے

خود کشی کے لیے تھوڑا سا یہ کافی ہے مگر

زندہ رہنے کو بہت زہر پیا جاتا ہے

تمام شہر میں کس طرح چاندنی پھیلی

کہ ماہتاب تو کل رات میرے گھر میں تھا

نقش مٹتے ہیں تو آتا ہے خیال

ریت پر ہم بھی کہاں تھے پہلے

وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے

عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

عجب جنون ہے یہ انتقام کا جذبہ

شکست کھا کے وہ پانی میں زہر ڈال آیا

کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں

محبتوں کے بھی موسم عجیب ہوتے ہیں

اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا

یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا

آج بھی شام غم! اداس نہ ہو

مانگ کر میں چراغ لاتا ہوں

خود اپنے پاؤں بھی لوگوں نے کر لیے زخمی

ہماری راہ میں کانٹے یہاں بچھاتے ہوئے

یہ مسخروں کو وظیفے یوں ہی نہیں ملتے

رئیس خود نہیں ہنستے ہنسانا پڑتا ہے

ہوا اجالا تو ہم ان کے نام بھول گئے

جو بجھ گئے ہیں چراغوں کی لو بڑھاتے ہوئے

وہ تڑپ جائے اشارہ کوئی ایسا دینا

اس کو خط لکھنا تو میرا بھی حوالہ دینا

میری خاموشی پہ تھے جو طعنہ زن

شور میں اپنے ہی بہرے ہو گئے

لوگ یوں کہتے ہیں اپنے قصے

جیسے وہ شاہ جہاں تھے پہلے

یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ

آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا

پلٹ چلیں کہ غلط آ گئے ہمیں شاید

رئیس لوگوں سے ملنے کے وقت ہوتے ہیں

مجھ کو بھی جاگنے کی اذیت سے دے نجات

اے رات اب تو گھر کے در و بام سو گئے

آج شہروں میں ہیں جتنے خطرے

جنگلوں میں بھی کہاں تھے پہلے

وہ جس کے صحن میں کوئی گلاب کھل نہ سکا

تمام شہر کے بچوں سے پیار کرتا تھا

جوانوں میں تصادم کیسے رکتا

قبیلے میں کوئی بوڑھا نہیں تھا

چوراہوں کا تو حسن بڑھا شہر کے مگر

جو لوگ نامور تھے وہ پتھر کے ہو گئے

اپنے آنچل میں چھپا کر مرے آنسو لے جا

یاد رکھنے کو ملاقات کے جگنو لے جا

جہاں ضدیں کیا کرتا تھا بچپنا میرا

کہاں سے لاؤں کھلونوں کی ان دکانوں کو

جوان ہو گئی اک نسل سنتے سنتے غزل

ہم اور ہو گئے بوڑھے غزل سناتے ہوئے

میں جسے ڈھونڈنے نکلا تھا اسے پا نہ سکا

اب جدھر جی ترا چاہے مجھے خوشبو لے جا

گھر سے کس طرح میں نکلوں کہ یہ مدھم سا چراغ

میں نہیں ہوں گا تو تنہائی میں بجھ جائے گا

اس کار آگہی کو جنوں کہہ رہے ہیں لوگ

محفوظ کر رہے ہیں فضا میں صدائیں ہم

نیا خوں رگوں میں رواں کر دیا

غزل ہم نے تجھ کو جواں کر دیا

سب دیکھ کر گزر گئے اک پل میں اور ہم

دیوار پر بنے ہوئے منظر میں کھو گئے

ہم عصروں میں یہ چھیڑ چلی آئی ہے اظہرؔ

یاں ذوقؔ نے غالبؔ کو بھی غالب نہیں سمجھا

ان کے بھی اپنے خواب تھے اپنی ضرورتیں

ہم سایے کا مگر وہ گلا کاٹتے رہے

کیا رہ گیا ہے شہر میں کھنڈرات کے سوا

کیا دیکھنے کو اب یہاں آئے ہوئے ہیں لوگ

کرنے کو روشنی کے تعاقب کا تجربہ

کچھ دور میرے ساتھ بھی پرچھائیاں گئیں

تاریخ بھی ہوں اتنے برس کی مورخو

چہرے پہ میرے جتنے برس کی یہ گرد ہے

تمام شہر سے بد ظن کرا دیا شہہ کو

مصاحبوں کا خدا جانے تھا ارادہ کیا

اب مرے بعد کوئی سر بھی نہیں ہوگا طلوع

اب کسی سمت سے پتھر بھی نہیں آئے گا

ہمارے سر کی بلندی تک آؤ تو دیکھو

فراز دار سے کیا کیا دکھائی دیتا ہے

Recitation

بولیے