شمع پر اشعار
شمع رات بھر روشی لٹانے
کیلئے جلتی رہتی ہے ، سب اس سے فیض اٹھاتے ہیں لیکن اس کے اپنے دکھ اور کرب کو کوئ نہیں سمجھتا ۔ کس طرح سے سیاہ کالی رات اس کے اوپر گزرتی ہے اسے کوئی نہیں جانتا ۔ تخلیق کاروں نے روشنی کے پیچھے کی ان تمام ان کہی باتوں کو زبان دی ہے ۔ خیال رہے کہ شاعری میں شمع اور پروانہ اپنے لفظی معنی اور مادی شکلوں سے بہت آگے نکل کر زندگی کی متنوع صورتوں کی علامت کے طور پر مستعمل ہیں ۔
سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں
عجیب لوگ ہیں دیوانے ہونا چاہتے ہیں
-
موضوعات : پروانہاور 1 مزید
ہوتی کہاں ہے دل سے جدا دل کی آرزو
جاتا کہاں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر
-
موضوعات : آرزواور 2 مزید
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے
تو کہیں ہو دل دیوانہ وہاں پہنچے گا
شمع ہوگی جہاں پروانہ وہاں پہنچے گا
پروانوں کا تو حشر جو ہونا تھا ہو چکا
گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں
شمع معشوقوں کو سکھلاتی ہے طرز عاشقی
جل کے پروانے سے پہلے بجھ کے پروانے کے بعد
-
موضوع : ترغیبی
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گم نام سے جل جاتے ہیں
جانے کیا محفل پروانہ میں دیکھا اس نے
پھر زباں کھل نہ سکی شمع جو خاموش ہوئی
-
موضوعات : پروانہاور 1 مزید
یوں تو جل بجھنے میں دونوں ہیں برابر لیکن
وہ کہاں شمع میں جو آگ ہے پروانے میں
خود ہی پروانے جل گئے ورنہ
شمع جلتی ہے روشنی کے لیے
مت کرو شمع کوں بد نام جلاتی وہ نہیں
آپ سیں شوق پتنگوں کو ہے جل جانے کا
-
موضوع : پروانہ
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے
شمع پر خون کا الزام ہو ثابت کیوں کر
پھونک دی لاش بھی کمبخت نے پروانے کی
میں ڈھونڈھ رہا ہوں مری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنا دے
خود بھی جلتی ہے اگر اس کو جلاتی ہے یہ
کم کسی طرح نہیں شمع بھی پروانے سے
پروانے آ ہی جائیں گے کھنچ کر بہ جبر عشق
محفل میں صرف شمع جلانے کی دیر ہے
روشنی جب سے مجھے چھوڑ گئی
شمع روتی ہے سرہانے میرے
پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہہ دیا کہ شمع کے سر سے دھواں اٹھا
شمع بجھ کر رہ گئی پروانہ جل کر رہ گیا
یادگار حسن و عشق اک داغ دل پر رہ گیا
خیال تک نہ کیا اہل انجمن نے ذرا
تمام رات جلی شمع انجمن کے لیے
خاک کر دیوے جلا کر پہلے پھر ٹسوے بہائے
شمع مجلس میں بڑی دل سوز پروانے کی ہے
-
موضوع : پروانہ
شمع کا شانۂ اقبال ہے توفیق کرم
غنچہ گل ہوتے ہی خود صاحب زر ہوتا ہے
رات اس کی محفل میں سر سے جل کے پاؤں تک
شمع کی پگھل چربی استخواں نکل آئی