Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شمع پر اشعار

شمع رات بھر روشی لٹانے

کیلئے جلتی رہتی ہے ، سب اس سے فیض اٹھاتے ہیں لیکن اس کے اپنے دکھ اور کرب کو کوئ نہیں سمجھتا ۔ کس طرح سے سیاہ کالی رات اس کے اوپر گزرتی ہے اسے کوئی نہیں جانتا ۔ تخلیق کاروں نے روشنی کے پیچھے کی ان تمام ان کہی باتوں کو زبان دی ہے ۔ خیال رہے کہ شاعری میں شمع اور پروانہ اپنے لفظی معنی اور مادی شکلوں سے بہت آگے نکل کر زندگی کی متنوع صورتوں کی علامت کے طور پر مستعمل ہیں ۔

سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں

عجیب لوگ ہیں دیوانے ہونا چاہتے ہیں

اسعد بدایونی

ہوتی کہاں ہے دل سے جدا دل کی آرزو

جاتا کہاں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر

جلیل مانک پوری

اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات

ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے

شیخ ابراہیم ذوقؔ

تو کہیں ہو دل دیوانہ وہاں پہنچے گا

شمع ہوگی جہاں پروانہ وہاں پہنچے گا

بہادر شاہ ظفر

پروانوں کا تو حشر جو ہونا تھا ہو چکا

گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں

شاد عظیم آبادی

شمع معشوقوں کو سکھلاتی ہے طرز عاشقی

جل کے پروانے سے پہلے بجھ کے پروانے کے بعد

جلیل مانک پوری

شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے

ہم اسی آگ میں گم نام سے جل جاتے ہیں

قتیل شفائی

میں ڈھونڈھ رہا ہوں مری وہ شمع کہاں ہے

جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنا دے

بہزاد لکھنوی

یوں تو جل بجھنے میں دونوں ہیں برابر لیکن

وہ کہاں شمع میں جو آگ ہے پروانے میں

جلیل مانک پوری

خود ہی پروانے جل گئے ورنہ

شمع جلتی ہے روشنی کے لیے

صنم پرتاپ گڑھی

شمع کے مانند ہم اس بزم میں

چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

خواجہ میر درد

مت کرو شمع کوں بد نام جلاتی وہ نہیں

آپ سیں شوق پتنگوں کو ہے جل جانے کا

سراج اورنگ آبادی

جانے کیا محفل پروانہ میں دیکھا اس نے

پھر زباں کھل نہ سکی شمع جو خاموش ہوئی

علیم مسرور

پروانے آ ہی جائیں گے کھنچ کر بہ جبر عشق

محفل میں صرف شمع جلانے کی دیر ہے

ماہر القادری

شمع پر خون کا الزام ہو ثابت کیوں کر

پھونک دی لاش بھی کمبخت نے پروانے کی

جلیل مانک پوری

خود بھی جلتی ہے اگر اس کو جلاتی ہے یہ

کم کسی طرح نہیں شمع بھی پروانے سے

نامعلوم

پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں

کیا کہہ دیا کہ شمع کے سر سے دھواں اٹھا

اسماعیل میرٹھی

اے شمع صبح ہوتی ہے روتی ہے کس لیے

تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے بھی گزار دے

عیش دہلوی

روشنی جب سے مجھے چھوڑ گئی

شمع روتی ہے سرہانے میرے

اصغر ویلوری

شمع بجھ کر رہ گئی پروانہ جل کر رہ گیا

یادگار‌ حسن و عشق اک داغ دل پر رہ گیا

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

خیال تک نہ کیا اہل انجمن نے ذرا

تمام رات جلی شمع انجمن کے لیے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

خاک کر دیوے جلا کر پہلے پھر ٹسوے بہائے

شمع مجلس میں بڑی دل سوز پروانے کی ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

شمع کا شانۂ اقبال ہے توفیق کرم

غنچہ گل ہوتے ہی خود صاحب زر ہوتا ہے

حبیب موسوی

رات اس کی محفل میں سر سے جل کے پاؤں تک

شمع کی پگھل چربی استخواں نکل آئی

شیخ ظہور الدین حاتم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے