Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

نامعلوم

نامعلوم کے اشعار

155.9K
Favorite

باعتبار

فضا مغموم ہے ساقی اٹھا چھلکائیں پیمانہ

اندھیرا بڑھ چلا ہے لا ذرا قندیل مے خانہ

عیش کے یار تو اغیار بھی بن جاتے ہیں

دوست وہ ہیں جو برے وقت میں کام آتے ہیں

ذرا سی بات تھی عرض تمنا پر بگڑ بیٹھے

وہ میری عمر بھر کی داستان درد کیا سنتے

شعر اچھا برا نہیں ہوتا

یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

جوکھم اے مردم دیدہ ہے سمجھ کے رونا

ڈوب بھی جاتے ہیں دریا میں نہانے والے

ناتوانی کا بھی احساں ہے مری گردن پر

کہ ترے پاؤں سے سر مجھ کو اٹھانے نہ دیا

اغیار بھی ہیں اس کی گلی میں تو کیا گلہ

وہ گلستاں ہی کیا ہے جہاں خار و خس نہیں

ڈبو کے سارے سفینے قریب ساحل کے

ہے ان کو پھر بھی یہ دعویٰ کہ نا خدا ہم ہیں

یا رب پڑی رہے میری میت اسی طرح

بیٹھے رہیں وہ بال پریشاں کیے ہوئے

وہ عیادت کے لئے آئے ہیں لو اور سہی

آج ہی خوبیٔ تقدیر سے حال اچھا ہے

کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے

تم بھی رسوا ہوئے آخر مجھے رسوا کر کے

لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں

میں نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں

سنا ہے تیری محفل میں سکون دل بھی ملتا ہے

مگر ہم جب تری محفل سے آئے بے قرار آئے

تم سمندر کی بات کرتے ہو

لوگ آنکھوں میں ڈوب جاتے ہیں

تو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ

ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبول ہے

یہ فقط آپ کی عنایت ہے

ورنہ میں کیا مری حقیقت کیا

کیا ہے قطع رشتہ سبحہ و زنار کا ہم نے

کہ شیخ اپنا مخالف ہے تو دشمن برہمن اپنا

غیر کو آنے نہ دوں تم کو کہیں جانے نہ دوں

کاش مل جائے تمہارے گھر کی دربانی مجھے

تیرے نثار ساقیا جتنی پیوں پلائے جا

مست نظر کا واسطہ مست مجھے بنائے جا

شک ان کو تھا کہ رات میں بوسہ نہ لے کوئی

گالوں پہ رکھ کے سوئے کلائی تمام رات

کیونکر نہ لطف بادہ کشی کا ہو آب میں

بارش میں جو حروف ہیں وہ ہیں شراب میں

لڑنے کو اس سے رات میں غصہ میں لڑ لیا

پر جب وہ اٹھ چلا تو کلیجہ پکڑ لیا

وہ کہہ کے چلے اتنی ملاقات بہت ہے

میں نے کہا رک جاؤ ابھی رات بہت ہے

مستوں پہ انگلیاں نہ اٹھاؤ بہار میں

دیکھو تو ہوش ہے بھی کسی ہوشیار میں

اگر فردوس بر روئے زمیں است

ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہم

چپ چاپ سوگوار تمہیں سوچتے رہے

ضدوں میں ترک تعلق تو کر لیا لیکن

سکون ان کو نہیں بے قرار ہم بھی ہیں

ہے دل ترا ہے جاں تری ایمان ہے ترا

تو کیسے مانوں تیرا مقدر نہیں ہوں میں

خدا کرے نہ ڈھلے دھوپ تیرے چہرہ کی

تمام عمر تری زندگی کی شام نہ ہو

جینے کی آرزو میں جو مرتے ہیں ساری عمر

شاید حیات نام اسی مرحلے کا ہے

کئی جوابوں سے اچھی ہے خامشی میری

نہ جانے کتنے سوالوں کی آبرو رکھے

رہ گئے سبحہ و زنار کے جھگڑے باقی

دھرم ہندو میں نہیں دین مسلماں میں نہیں

کھلونوں کی دکانو راستا دو

مرے بچے گزرنا چاہتے ہیں

یہ کہہ کے دیا اس نے درد محبت

جہاں ہم رہیں گے یہ ساماں رہے گا

نکل کے خلد سے ان کو ملی خلافت ارض

نکالے جانے کی تہمت ہمارے سر آئی

جانتے ہیں ہم محبت آزمائی ہو چکی

آؤ لگ جاؤ گلے بس اب لڑائی ہو چکی

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

اس مرض سے کوئی بچا بھی ہے

چارہ گر عشق کی دوا بھی ہے

کمسنی کا حسن تھا وہ یہ جوانی کی بہار

تھا یہی تل پہلے بھی رخ پر مگر قاتل نہ تھا

دستور ہے دنیا کا مگر یہ تو بتاؤ

ہم کس سے ملیں کس سے کہیں عید مبارک

دل یہی کہتا چلا ہے کوئے جاناں کی طرف

اور تھوڑی دور چلئے اور تھوڑی دور ہے

رکھ کے منہ سو گئے ہم آتشیں رخساروں پر

دل کو تھا چین تو نیند آ گئی انگاروں پر

جلوہ مچل پڑے تو سحر کا گماں ہوا

زلفیں بکھر گئیں تو سیاہ رات ہو گئی

وصل کو موقوف کرنا پڑ گیا ہے چند روز

اب مجھے ملنے نہ آنا اب کوئی شکوہ نہیں

در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے

سر جہاں رکھتے ہیں سب ہم واں قدم رکھتے نہیں

پلکوں کی حد کو توڑ کے دامن پہ آ گرا

اک اشک میرے صبر کی توہین کر گیا

غیر کو درد سنانے کی ضرورت کیا ہے

اپنے جھگڑے میں زمانے کی ضرورت کیا ہے

تماشا دیکھ رہے تھے جو ڈوبنے کا مرے

مری تلاش میں نکلے ہیں کشتیاں لے کر

گلشن سے کوئی پھول میسر نہ جب ہوا

تتلی نے راکھی باندھ دی کانٹے کی نوک پر

اب میں سمجھا ترے رخسار پہ تل کا مطلب

دولت حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے

تشریح

رخسار یعنی گال، دولتِ حسن یعنی حسن کی دولت، دربان یعنی رکھوالا۔ یہ شعر اپنے مضمون کی ندرت کی وجہ سے زبان زدِ عام ہے۔ شعر میں مرکزی حیثیت ’’رخسار پر تل‘‘ کو حاصل ہے کیونکہ اسی کی مناسبت سے شاعر نے مضمون پیدا کیا ہے۔ محبوب کے رخسار کو دربان(رکھوالا) سے مشابہ کرنا شاعر کا کمال ہے۔ اور جب دولتِ حسن کہا تو گویا محبوب کے سراپا کو آنکھوں کے سامنے لایا۔

رخسار پر تل ہونا حسن کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر چونکہ محبوب پیکرِ جمال ہے اس خوبی کی مناسبت سے شاعر نے یہ خیال باندھا ہے کہ جس طرح بری نظر سے محفوظ رکھنے کے لئے خوبصورت بچوں کے گال پر کالا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اسی طرح میرے محبوب کو لوگوں کی بری نظر سے بچانے کے لئے خدا نے اس کے گال پر تل رکھا ہے۔ اور جس طرح مال و دولت کو لٹیروں سے محفوظ رکھنے کے لئے اس پر دربان (رکھوالے)بٹھائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح خدا نے میرے محبوب کے حسن کو بری نظر سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے گال پر تل بنایا ہے۔

شفق سوپوری

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے