Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Himayat Ali Shayar's Photo'

حمایت علی شاعر

1926 - 2019 | ٹورنٹو, کناڈا

حمایت علی شاعر کے اشعار

3.9K
Favorite

باعتبار

اس دشت پہ احساں نہ کر اے ابر رواں اور

جب آگ ہو نم خوردہ تو اٹھتا ہے دھواں اور

میں سچ تو بولتا ہوں مگر اے خدائے حرف

تو جس میں سوچتا ہے مجھے وہ زبان دے

شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ

ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

تاریکی میں لپٹی ہوئی پر ہول خموشی

اس عالم میں کیا نہیں ممکن جاگتے رہنا

ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ

دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ

پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر

حاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا

روشنی میں اپنی شخصیت پہ جب بھی سوچنا

اپنے قد کو اپنے سائے سے بھی کم تر دیکھنا

تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی

کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے

صرف زندہ رہنے کو زندگی نہیں کہتے

کچھ غم محبت ہو کچھ غم جہاں یارو

شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز

اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ

زندگی کی بات سن کر کیا کہیں

اک تمنا تھی تقاضا بن گئی

سورج کو یہ غم ہے کہ سمندر بھی ہے پایاب

یا رب مرے قلزم میں کوئی سیل رواں اور

اس جہاں میں تو اپنا سایہ بھی

روشنی ہو تو ساتھ چلتا ہے

اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے

چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے

سورج کے اجالے میں چراغاں نہیں ممکن

سورج کو بجھا دو کہ زمیں جشن منائے

بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے

مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے

کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش

جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ

اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے

تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا

ہر طرف اک مہیب سناٹا

دل دھڑکتا تو ہے مگر خاموش

میں سوچتا ہوں اس لیے شاید میں زندہ ہوں

ممکن ہے یہ گمان حقیقت کا گیان دے

ایماں بھی لاج رکھ نہ سکا میرے جھوٹ کی

اپنے خدا پہ کتنا مجھے اعتماد تھا

ہم بھی ہیں کسی کہف کے اصحاب کے مانند

ایسا نہ ہو جب آنکھ کھلے وقت گزر جائے

یہ کیسا قافلہ ہے جس میں سارے لوگ تنہا ہیں

یہ کس برزخ میں ہیں ہم سب تمہیں بھی سوچنا ہوگا

رہ جائے اک نگاہ کا پردہ ہی درمیاں

تہذیب کے بدن سے تو رسم قبا اٹھی

میں کچھ نہ کہوں اور یہ چاہوں کہ مری بات

خوشبو کی طرح اڑ کے ترے دل میں اتر جائے

اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہ گزر کوئی

جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے