چارہ گر پر اشعار
کلاسیکی شاعری میں موجود
عشق کی کہانی میں جو چند بنیادی کردارہیں ان میں ایک چارہ گر بھی ہے۔ ہجرکی تکلیفوں ، دربدری اورصحرانوردی کی مصیبتوں میں جوایک آخری سہارا ہوتا ہے وہ چارہ گرکا ہی ہوتا ہے ۔ چارہ گرایک بہت سیدھا سادا کردارہے وہ عشق کے آزار کی نوعیت سے واقف نہیں ہوتا اورعاشق کے دکھ درد کا علاج اپنے عام نسخوں اورترکیبوں سے کرنا چاہتا ہے لیکن عاشق اچھا نہیں ہوتا ۔ اس مقام پرعاشق اورچارہ گرکے درمیان کا مکالمہ ایک الگ ہی لطف رکھتا ہے ۔
اس مرض سے کوئی بچا بھی ہے
چارہ گر عشق کی دوا بھی ہے
ایک دن تجھ کو اچانک یہ خبر آئے گی
تیرے بیمار شفا یاب نہیں ہو پائے
خبر ہے کوئی چارہ گر آئے گا
سلیقے سے بیٹھے ہیں بیمار سب
چارہ گری کی بات کسی اور سے کرو
اب ہو گئے ہیں یارو پرانے مریض ہم
اے مرے چارہ گر ترے بس میں نہیں معاملہ
صورت حال کے لیے واقف حال چاہئے
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر میرا درد اور بڑھا نہ دے
-
موضوع : درد
کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا
چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا
-
موضوعات : درداور 1 مزید
کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی
چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا
-
موضوعات : امیداور 1 مزید
گویا تمہاری یاد ہی میرا علاج ہے
ہوتا ہے پہروں ذکر تمہارا طبیب سے
-
موضوع : یاد
نئی نہیں ہے یہ تنہائی میرے حجرے کی
مرض ہو کوئی بھی ہے چارہ گر سے ڈر جانا
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
کس سے جا کر مانگیے درد محبت کی دوا
چارہ گر اب خود ہی بے چارے نظر آنے لگے
کبھی جو زحمت کار رفو نہیں کرتا
ہمارے زخم اسی چارہ گر کے نام تمام
طبیبوں کی توجہ سے مرض ہونے لگا دونا
دوا اس درد کی بتلا دل آگاہ کیا کیجے
اب مرا درد مری جان ہوا جاتا ہے
اے مرے چارہ گرو اب مجھے اچھا نہ کرو
-
موضوع : درد