Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bekhud Dehlvi's Photo'

بیخود دہلوی

1863 - 1955 | دلی, انڈیا

داغ دہلوی کے شاگرد

داغ دہلوی کے شاگرد

بیخود دہلوی کے اشعار

21.4K
Favorite

باعتبار

محبت اور مجنوں ہم تو سودا اس کو کہتے ہیں

فدا لیلیٰ پہ تھا آنکھوں کا اندھا اس کو کہتے ہیں

دل چرا کر لے گیا تھا کوئی شخص

پوچھنے سے فائدہ، تھا کوئی شخص

دشمن کے گھر سے چل کے دکھا دو جدا جدا

یہ بانکپن کی چال یہ ناز و ادا کی ہے

نامہ بر یہ تو کہی بات پتے کی تو نے

ذکر اس بزم میں رہتا تو ہے اکثر اپنا

دل ہوا جان ہوئی ان کی بھلا کیا قیمت

ایسی چیزوں کے کہیں دام دیے جاتے ہیں

تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام

تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے

ہمیں پینے سے مطلب ہے جگہ کی قید کیا بیخودؔ

اسی کا نام جنت رکھ دیا بوتل جہاں رکھ دی

دل وہ کافر ہے کہ مجھ کو نہ دیا چین کبھی

بے وفا تو بھی اسے لے کے پشیماں ہوگا

تکیہ ہٹتا نہیں پہلو سے یہ کیا ہے بیخودؔ

کوئی بوتل تو نہیں تم نے چھپا رکھی ہے

بات وہ کہئے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں

کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لیے

تشریح

شعر میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے اسی نے اسے دل چسپ بنایا ہے۔ اس میں لفظ بات کی اگرچہ تین دفعہ اور پہلو کی دو دفعہ تکرار ہوئی ہے مگر لفظوں کی ترنم ریزی اور بیان کی روانی کے وصف نے شعر میں لطف پیدا کیا ہے۔ پہلو کی مناسبت سے لفظ بدلنے نے شعر کی کیفیت کو تاثر بخشا ہے۔

دراصل شعر میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے، وہ اگرچہ کسی تخصیص کا حامل نہیں بلکہ عام فہم ہے مگر جس انداز سے شاعر نے اس نکتے کوبیان کیا ہے وہ اس نکتے کو عام فہم ہونے کے باوجود نادر بنادیتا ہے۔

ٍشعر کا مفہوم یہ ہے کہ بات کو کچھ ایسے رمزیہ انداز میں کہنا چاہیے کہ اس سے سو طرح کے مفہوم بر آمد ہوں۔کیونکہ معنی کے اعتبار سے اکہری بات کہنا دانا لوگوں کا شیوہ نہیں بلکہ وہ سو نکتوں کا نچوڑ ایک بات میں بیان کرتے ہیں۔ اس طرح سے سننے والوں کو بحث کرنے یا وضاحت طلب کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی پہلو ہاتھ آجاتا ہے۔ اور جب بات کے پہلو کثیر ہوں تو بات بدلنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ یعنی نکتے سے نکتہ برآمد ہوتا ہے۔

شفق سوپوری

دل وہ کافر ہے کہ مجھ کو نہ دیا چین کبھی

بے وفا تو بھی اسے لے کے پشیماں ہوگا

کچھ طرح رندوں نے دی کچھ محتسب بھی دب گیا

چھیڑ آپس میں سر بازار ہو کر رہ گئی

سن کے ساری داستان رنج و غم

کہہ دیا اس نے کہ پھر ہم کیا کریں

جھوٹا جو کہا میں نے تو شرما کے وہ بولے

اللہ بگاڑے نہ بنی بات کسی کی

اب آپ کوئی کام سکھا دیجئے ہم کو

معلوم ہوا عشق کے قابل تو نہیں ہم

دی قسم وصل میں اس بت کو خدا کی تو کہا

تجھ کو آتا ہے خدا یاد ہمارے ہوتے

محفل وہی مکان وہی آدمی وہی

یا ہم نئے ہیں یا تری عادت بدل گئی

موت آ رہی ہے وعدے پہ یا آ رہے ہو تم

کم ہو رہا ہے درد دل بے قرار کا

چلنے کی نہیں آج کوئی گھات کسی کی

سننے کے نہیں وصل میں ہم بات کسی کی

دل تو لیتے ہو مگر یہ بھی رہے یاد تمہیں

جو ہمارا نہ ہوا کب وہ تمہارا ہوگا

سوال وصل پر کچھ سوچ کر اس نے کہا مجھ سے

ابھی وعدہ تو کر سکتے نہیں ہیں ہم مگر دیکھو

ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی

دیا ہے جس نے تم جیسے کو دل اس کا جگر دیکھو

منہ میں واعظ کے بھی بھر آتا ہے پانی اکثر

جب کبھی تذکرۂ جام شراب آتا ہے

دل محبت سے بھر گیا بیخودؔ

اب کسی پر فدا نہیں ہوتا

آپ ہوں ہم ہوں مئے ناب ہو تنہائی ہو

دل میں رہ رہ کے یہ ارمان چلے آتے ہیں

تصویر کیوں دکھائیں تمہیں نام کیوں بتائیں

لائے ہیں ہم کہیں سے کسی بے وفا کی ہے

راہ میں بیٹھا ہوں میں تم سنگ رہ سمجھو مجھے

آدمی بن جاؤں گا کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد

آپ کو رنج ہوا آپ کے دشمن روئے

میں پشیمان ہوا حال سنا کر اپنا

آپ شرما کے نہ فرمائیں ہمیں یاد نہیں

غیر کا ذکر ہے یہ آپ کی روداد نہیں

جواب سوچ کے وہ دل میں مسکراتے ہیں

ابھی زبان پہ میری سوال بھی تو نہ تھا

رند مشرب کوئی بیخودؔ سا نہ ہوگا واللہ

پی کے مسجد ہی میں یہ خانہ خراب آتا ہے

چشم بد دور وہ بھولے بھی ہیں ناداں بھی ہیں

ظلم بھی مجھ پہ کبھی سوچ سمجھ کر نہ ہوا

آئنہ دیکھ کر وہ یہ سمجھے

مل گیا حسن بے مثال ہمیں

سخت جاں ہوں مجھے اک وار سے کیا ہوتا ہے

ایسی چوٹیں کوئی دو چار تو آنے دیجے

نہ دیکھے ہوں گے رند لاابالی تم نے بیخودؔ سے

کہ ایسے لوگ اب آنکھوں سے اوجھل ہوتے جاتے ہیں

بیخودؔ ضرور رات کو سوئے ہو پی کے تم

یہ تو کہو نماز پڑھی یا قضا ہوئی

نہ دیکھنا کبھی آئینہ بھول کر دیکھو

تمہارے حسن کا پیدا جواب کر دے گا

دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں

میرے روٹھے ہوئے مہمان چلے آتے ہیں

بیخودؔ تو مر مٹے جو کہا اس نے ناز سے

اک شعر آ گیا ہے ہمیں آپ کا پسند

یہ کہہ کے میرے سامنے ٹالا رقیب کو

مجھ سے کبھی کی جان نہ پہچان جائیے

وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا

جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا

تمہاری یاد میرا دل یہ دونوں چلتے پرزے ہیں

جو ان میں سے کوئی مٹتا مجھے پہلے مٹا جاتا

بات کرنے کی شب وصل اجازت دے دو

مجھ کو دم بھر کے لئے غیر کی قسمت دے دو

تری تیغ کا لال کر دوں گا منہ

جو یہ کھیلنے مجھ سے آئے گی رنگ

تصویر کیوں دکھائیں تمہیں نام کیوں بتائیں

لائے ہیں ہم کہیں سے کسی بے وفا کی ہے

تمہارے ہاتھ خالی جیب خالی زلف خالی تھی

نہ تھے تم چور دل کے لو ادھر دیکھو یہ کیا نکلا

اس جبین عرق افشاں پہ نہ چنئے افشاں

یہ ستارے کہیں مل جائیں نہ سیاروں میں

پڑھے جاؤ بیخودؔ غزل پر غزل

وہ بت بن گئے ہیں سنے جائیں گے

جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں

تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا

اپنے جلوے کا وہ خود آپ تماشائی ہے

آئینے اس نے لگا رکھے ہیں دیواروں میں

Recitation

بولیے