Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aitbar Sajid's Photo'

غنائیت اور نغمگی کے ساتھ ہجر و وصال کی کیفیتوں سے بھری رومانی شاعری کے لیے مشہور

غنائیت اور نغمگی کے ساتھ ہجر و وصال کی کیفیتوں سے بھری رومانی شاعری کے لیے مشہور

اعتبار ساجد کے اشعار

12.8K
Favorite

باعتبار

کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے

کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے

میں تکیے پر ستارے بو رہا ہوں

جنم دن ہے اکیلا رو رہا ہوں

ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں

دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے

اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو

وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے

پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے

ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے

گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر

اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ

عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے

یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے

یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم

اب اپنے آپ کو بھی چھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم

ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے

دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا

تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتار دو

میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو

ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے

ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا

پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے

باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے

رہا کر دے قفس کی قید سے گھایل پرندے کو

کسی کے درد کو اس دل میں کتنے سال پالے گا

کسے پانے کی خواہش ہے کہ ساجدؔ

میں رفتہ رفتہ خود کو کھو رہا ہوں

میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری

دل میں بھی جھانک مری ظاہری حالت پہ نہ جا

ان دوریوں نے اور بڑھا دی ہیں قربتیں

سب فاصلے وبا کی طوالت سے مٹ گئے

تعلقات میں گہرائیاں تو اچھی ہیں

کسی سے اتنی مگر قربتیں بھی ٹھیک نہیں

ابھی ریل کے سفر میں ہیں بہت نہال دونوں

کہیں روگ بن نہ جائے یہی ساتھ دو گھڑی کا

جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے

وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں

تعلق کرچیوں کی شکل میں بکھرا تو ہے پھر بھی

شکستہ آئینوں کو جوڑ دینا چاہتے ہیں ہم

مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے

منفرد ہم غم حالات لیے پھرتے ہیں

جس کو ہم نے چاہا تھا وہ کہیں نہیں اس منظر میں

جس نے ہم کو پیار کیا وہ سامنے والی مورت ہے

بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں

آ مرے دل مرے غم خوار کہیں اور چلیں

چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ

لوگ زندہ ہیں عجب صورت حالات کے ساتھ

جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی

چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی

اتنا پسپا نہ ہو دیوار سے لگ جائے گا

اتنے سمجھوتے نہ کر صورت حالات کے ساتھ

دیئے منڈیر پہ رکھ آتے ہیں ہم ہر شام نہ جانے کیوں

شاید اس کے لوٹ آنے کا کچھ امکان ابھی باقی ہے

رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا

اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا

مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد

مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو مرے سارے رنگ اتار دو

مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی

وگرنہ صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے

برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی

کچھ تو گرد سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا

پہلے غم فرقت کے یہ تیور تو نہیں تھے

رگ رگ میں اترتی ہوئی تنہائی تو اب ہے

غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی

ہمارا مسئلہ فقط قلم دوات ہی نہیں

یہ جو پھولوں سے بھرا شہر ہوا کرتا تھا

اس کے منظر ہیں دل آزار کہیں اور چلیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے