Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shakeb Jalali's Photo'

شکیب جلالی

1934 - 1966 | کراچی, پاکستان

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی

شکیب جلالی کی ٹاپ ٢٠ شاعری

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا

ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے

تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے

زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو

زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے

ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے

چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

یوں تو سارا چمن ہمارا ہے

پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا

زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی

نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ

کام جس مہربان سے نکلا

عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا

تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت

گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا

ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

Recitation

بولیے