شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی
اسی لئے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کھل نہ سکا تھا کہ رت بدلنے لگی
اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی
کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی
تو پور پور مری مثل شمع جلنے لگی
میں ناپتا چلا قدموں سے اپنے سائے کو
کبھی جو دشت مسافت میں دھوپ ڈھلنے لگی
مری نگاہ میں خواہش کا شائبہ بھی نہ تھا
یہ برف سی ترے چہرے پہ کیوں پگھلنے لگی
ہوا چلی سر صحرا تو یوں لگا جیسے
ردائے شام مرے دوش سے پھسلنے لگی
کہیں پڑا نہ ہو پرتو بہار رفتہ کا
یہ سبز بوند سی پلکوں پہ کیا مچلنے لگی
نہ جانے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ
فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی
جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
جو اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
جہاں شجر پہ لگا تھا تبر کا زخم شکیبؔ
وہیں یہ دیکھ لے کونپل نئی نکلنے لگی
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 561)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.