وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت
کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں
اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت
نہ جانے رت کا تصرف تھا یا نظر کا فریب
کلی وہی تھی مگر رنگ جھلملائے بہت
ہوا کا رخ ہی اچانک بدل گیا ورنہ
مہک کے قافلے صحرا کی سمت آئے بہت
یہ کائنات ہے میری ہی خاک کا ذرہ
میں اپنے دشت سے گزرا تو بھید پائے بہت
جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا
تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت
بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے
مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت
جمی رہے گی نگاہوں پہ تیرگی دن بھر
کہ رات خواب میں تارے اتر کے آئے بہت
شکیبؔ کیسی اڑان اب وہ پر ہی ٹوٹ گئے
کہ زیر دام جب آئے تھے پھڑپھڑائے بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.