Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مے کشی پر اشعار

مے کشی پر شاعری موضوعاتی

طور پر بہت متنوع ہے ۔ اس میں مے کشی کی حالت کے تجربات اور کیفیتوں کا بیان بھی ہے اور مے کشی کو لے کر زاہد وناصح سے روایتی چھیڑ چھاڑ بھی ۔ اس شاعری میں مے کشوں کے لئے بھی کئی دلچسپ پہلو ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب کو پڑھئے اور لطف اٹھائیے ۔

شب جو ہم سے ہوا معاف کرو

نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

جون ایلیا

اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

شیخ ابراہیم ذوقؔ

بے پیے شیخ فرشتہ تھا مگر

پی کے انسان ہوا جاتا ہے

شکیل بدایونی

زبان ہوش سے یہ کفر سرزد ہو نہیں سکتا

میں کیسے بن پئے لے لوں خدا کا نام اے ساقی

عبد الحمید عدم

بے پئے ہی شراب سے نفرت

یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے

ساحر لدھیانوی

پی کے جیتے ہیں جی کے پیتے ہیں

ہم کو رغبت ہے ایسے جینے سے

الطاف مشہدی

مجھے توبہ کا پورا اجر ملتا ہے اسی ساعت

کوئی زہرہ جبیں پینے پہ جب مجبور کرتا ہے

عبد الحمید عدم

اذاں ہو رہی ہے پلا جلد ساقی

عبادت کریں آج مخمور ہو کر

نامعلوم

اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی

بے پیے بے خودی سی رہتی ہے

ریاضؔ خیرآبادی

تم شراب پی کر بھی ہوش مند رہتے ہو

جانے کیوں مجھے ایسی مے کشی نہیں آئی

سلام ؔمچھلی شہری

وہ ملے بھی تو اک جھجھک سی رہی

کاش تھوڑی سی ہم پئے ہوتے

عبد الحمید عدم

سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے

اور جگرؔ کو شراب نے مارا

جگر مراد آبادی

اے شیخ مرتے مرتے بچے ہیں پیے بغیر

عاصی ہوں اب جو توبہ کریں مے کشی سے ہم

جلیل مانک پوری

کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی

آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی

ندا فاضلی

مے کشی کے بھی کچھ آداب برتنا سیکھو

ہاتھ میں اپنے اگر جام لیا ہے تم نے

آل احمد سرور

ہر شب شب برات ہے ہر روز روز عید

سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کے

حیدر علی آتش

اٹھا صراحی یہ شیشہ وہ جام لے ساقی

پھر اس کے بعد خدا کا بھی نام لے ساقی

کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر

رند خراب نوش کی بے ادبی تو دیکھیے

نیت مے کشی نہ کی ہاتھ میں جام لے لیا

شکیل بدایونی

اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز

یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے

فرحت شہزاد

مے کشی سے نجات مشکل ہے

مے کا ڈوبا کبھی ابھر نہ سکا

جلیل مانک پوری

پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب

کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

جام لے کر مجھ سے وہ کہتا ہے اپنے منہ کو پھیر

رو بہ رو یوں تیرے مے پینے سے شرماتے ہیں ہم

غمگین دہلوی

خشک باتوں میں کہاں ہے شیخ کیف زندگی

وہ تو پی کر ہی ملے گا جو مزا پینے میں ہے

عرش ملسیانی

ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح

اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی

شکیل بدایونی

غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی

پیتا ہوں روز ابر و شب ماہ تاب میں

مرزا غالب

غرق کر دے تجھ کو زاہد تیری دنیا کو خراب

کم سے کم اتنی تو ہر میکش کے پیمانے میں ہے

جگر مراد آبادی

مےکشی گردش ایام سے آگے نہ بڑھی

میری مدہوشی مرے جام سے آگے نہ بڑھی

حکیم ناصر

مے کشی میں رکھتے ہیں ہم مشرب درد شراب

جام مے چلتا جہاں دیکھا وہاں پر جم گئے

حسرتؔ عظیم آبادی

زاہد شراب ناب ہو یا بادۂ طہور

پینے ہی پر جب آئے حرام و حلال کیا

حفیظ جونپوری

شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

جلالؔ لکھنوی

مے کشو دیر ہے کیا دور چلے بسم اللہ

آئی ہے شیشہ و ساغر کی طلب گار گھٹا

آغا اکبرآبادی

پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری

خدا سے جب نہیں چوری تو پھر بندے سے کیا چوری

شیخ ابراہیم ذوقؔ

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے