Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Moin Ahsan Jazbi's Photo'

معین احسن جذبی

1912 - 2005 | علی گڑہ, انڈیا

ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں۔ فیض احمد فیض کے ہم عصر۔ اپنی غزل’مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں۔۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور، جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی ہے

ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں۔ فیض احمد فیض کے ہم عصر۔ اپنی غزل’مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں۔۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور، جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی ہے

معین احسن جذبی کے اشعار

7.8K
Favorite

باعتبار

مختصر یہ ہے ہماری داستان زندگی

اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے

یہی زندگی مصیبت یہی زندگی مسرت

یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ

اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے

کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے

جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی

اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

ملے مجھ کو غم سے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ

کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرت شبانہ

جب تجھ کو تمنا میری تھی تب مجھ کو تمنا تیری تھی

اب تجھ کو تمنا غیر کی ہے تو تیری تمنا کون کرے

جب محبت کا نام سنتا ہوں

ہائے کتنا ملال ہوتا ہے

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے

یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے

ہزار بار کیا عزم ترک نظارہ

ہزار بار مگر دیکھنا پڑا مجھ کو

ہمیں ہیں سوز ہمیں ساز ہیں ہمیں نغمہ

ذرا سنبھل کے سر بزم چھیڑنا ہم کو

مسکرا کر ڈال دی رخ پر نقاب

مل گیا جو کچھ کہ ملنا تھا جواب

نہ آئے موت خدایا تباہ حالی میں

یہ نام ہوگا غم روزگار سہ نہ سکا

اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں

منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا

تری رسوائی کا ہے ڈر ورنہ

دل کے جذبات تو محدود نہیں

اس نے اس طرح محبت کی نگاہیں ڈالیں

ہم سے دنیا کا کوئی راز چھپایا نہ گیا

میری عرض شوق بے معنی ہے ان کے واسطے

ان کی خاموشی بھی اک پیغام ہے میرے لیے

کیا ماتم ان امیدوں کا جو آتے ہی دل میں خاک ہوئیں

کیا روئے فلک ان تاروں پر دم بھر جو چمک کر ٹوٹ گئے

کبھی درد کی تمنا کبھی کوشش مداوا

کبھی بجلیوں کی خواہش کبھی فکر آشیانہ

رستے ہوئے زخموں کا ہو کچھ اور مداوا

یہ حرف تسلی کوئی مرہم تو نہیں ہے

دل ناکام تھک کے بیٹھ گیا

جب نظر آئی منزل مقصود

اک پیاس بھرے دل پر نہ ہوئی تاثیر تمہاری نظروں کی

اک موم کے بے بس ٹکڑے پر یہ نازک خنجر ٹوٹ گئے

ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں

اشکوں کی زباں میں کہتے ہیں آہوں میں اشارا کرتے ہیں

جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا

کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا

ضبط غم بے سبب نہیں جذبیؔ

خلش دل بڑھا رہا ہوں میں

یا اشکوں کا رونا تھا مجھے یا اکثر روتا رہتا ہوں

یا ایک بھی گوہر پاس نہ تھا یا لاکھوں گوہر ٹوٹ گئے

یوں بڑھی ساعت بہ ساعت لذت درد فراق

رفتہ رفتہ میں نے خود کو دشمن جاں کر دیا

ابھی سموم نے مانی کہاں نسیم سے ہار

ابھی تو معرکہ ہائے چمن کچھ اور بھی ہیں

میری ہی نظر کی مستی سے سب شیشہ و ساغر رقصاں تھے

میری ہی نظر کی گرمی سے سب شیشہ و ساغر ٹوٹ گئے

تو اور غم الفت جذبیؔ مجھ کو تو یقیں آئے نہ کبھی

جس قلب پہ ٹوٹے ہوں پتھر اس قلب میں نشتر ٹوٹ گئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے