اسد علی خان قلق کے اشعار
ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی
دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو
سندور اس کی مانگ میں دیتا ہے یوں بہار
جیسے دھنک نکلتی ہے ابر سیاہ میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل
اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو
-
موضوع : انسان
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے بے خودی دل مجھے یہ بھی خبر نہیں
کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا
-
موضوع : بے خودی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہونٹھوں میں داب کر جو گلوری دی یار نے
کیا دانت پیسے غیروں نے کیا کیا چبائے ہونٹھ
-
موضوع : پان
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھر مجھ سے اس طرح کی نہ کیجے گا دل لگی
خیر اس گھڑی تو آپ کا میں کر گیا لحاظ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دست جنوں نے پھاڑ کے پھینکا ادھر ادھر
دامن ابد میں ہے تو گریباں ازل میں ہے
کرو تم مجھ سے باتیں اور میں باتیں کروں تم سے
کلیم اللہ ہو جاؤں میں اعجاز تکلم سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آثار رہائی ہیں یہ دل بول رہا ہے
صیاد ستم گر مرے پر کھول رہا ہے
-
موضوع : امید
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خفا ہو گالیاں دو چاہے آنے دو نہ آنے دو
میں بوسے لوں گا سوتے میں مجھے لپکا ہے چوری کا
وہ رند ہوں کہ مجھے ہتھکڑی سے بیعت ہے
ملا ہے گیسوئے جاناں سے سلسلہ دل کا
زمین پاؤں کے نیچے سے سرکی جاتی ہے
ہمیں نہ چھیڑئیے ہم ہیں فلک ستائے ہوئے
عمر تو اپنی ہوئی سب بت پرستی میں بسر
نام کو دنیا میں ہیں اب صاحب اسلام ہم
رستے میں ان کو چھیڑ کے کھاتے ہیں گالیاں
بازار کی مٹھائی بھی ہوتی ہے کیا لذیذ
اے پری زاد جو تو رقص کرے مستی میں
دانۂ تاک ہر اک پاؤں میں گھنگھرو ہو جائے
خدا حافظ ہے اب اے زاہدو اسلام عاشق کا
بتان دہر غالب آ گئے ہیں کعبہ و دل پر
خریداریٔ جنس حسن پر رغبت دلاتا ہے
بنا ہے شوق دل دلال بازار محبت کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہی انصاف ترے عہد میں ہے اے شہ حسن
واجب القتل محبت کے گنہ گار ہیں سب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یار کی فرط نزاکت کا ہوں میں شکر گزار
دھیان بھی اس کا مرے دل سے نکلنے نہ دیا
بنا کر تل رخ روشن پر دو شوخی سے سے کہتے ہیں
یہ کاجل ہم نے یارا ہے چراغ ماہ تاباں پر
کریں گے ہم سے وہ کیوں کر نباہ دیکھتے ہیں
ہم ان کی تھوڑے دنوں اور چاہ دیکھتے ہیں
چلا ہے چھوڑ کے تنہا کدھر تصور یار
شب فراق میں تھا تجھ سے مشغلہ دل کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یاد دلوایئے ان کو جو کبھی وعدۂ وصل
تو وہ کس ناز سے فرماتے ہیں ہم بھول گئے
رخ تہ زلف ہے اور زلف پریشاں سر پر
مانگ بالوں میں نہیں ہے یہ نمایاں سر پر
منزل ہے اپنی اپنی قلقؔ اپنی اپنی گور
کوئی نہیں شریک کسی کے گناہ میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا کوئی دل لگا کے کہے شعر اے قلقؔ
ناقدریٔ سخن سے ہیں اہل سخن اداس
وہ ایک رات تو مجھ سے الگ نہ سوئے گا
ہوا جو لذت بوس و کنار سے واقف
ہمت کا زاہدوں کی سراسر قصور تھا
مے خانہ خانقاہ سے ایسا نہ دور تھا
ستم وہ تم نے کیے بھولے ہم گلہ دل کا
ہوا تمہارے بگڑنے سے فیصلہ دل کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گھاٹ پر تلوار کے نہلائیو میت مری
کشتۂ ابرو ہوں میں کیا غسل خانہ چاہئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چھیڑا اگر مرے دل نالاں کو آپ نے
پھر بھول جائیے گا بجانا ستار کا
قلقؔ غزلیں پڑھیں گے جائے قرآں سب پس مردن
ہماری قبر پر جب مجمع اہل سخن ہوگا
کھلنے سے ایک جسم کے سو عیب ڈھک گئے
عریاں تنی بھی جوش جنوں میں لباس ہے
عالم پیری میں کیا موئے سیہ کا اعتبار
صبح صادق دیتی ہے جھوٹی گواہی رات کی
ترے ہونٹھوں سے شرما کر پسینے میں ہوا یہ تر
خضر نے خود عرق پونچھا جبین آب حیواں کا
میں وہ میکش ہوں ملی ہے مجھ کو گھٹی میں شراب
شیر کے بدلے پیا ہے میں نے شیرہ تاک کا
ہوا میں رند مشرب خاک مر کر اس تمنا میں
نماز آخر پڑھیں گے وہ کسی دن تو تیمم سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوتاہ عمر ہو گئی اور یہ نہ کم ہوئی
اے جان آ کے طول شب انتظار دیکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
راہ حق میں کھیل جاں بازی ہے او ظاہر پرست
کیا تماشا دار پر منصور نے نٹ کا کیا
خط میں لکھی ہے حقیقت دشت گردی کی اگر
نامہ بر جنگلی کبوتر کو بنانا چاہئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گلگشت باغ کو جو گیا وہ گل فرنگ
غنچے سلام کرتے تھے ٹوپی اتار کے
جمے کیا پاؤں میرے خانۂ دل میں قناعت کا
جگر میں چٹکیاں لیتا ہے ناخن دست حاجت کا
جب ہوا گرم کلام مختصر مہکا دیا
عطر کھینچا یار کے لب نے گل تقریر کا
مبارک دیر و کعبہ ہوں قلقؔ شیخ و برہمن کو
بچھائیں گے مصلیٰ چل کے ہم محراب ابرو میں
ان واعظوں کی ضد سے ہم اب کی بہار میں
توڑیں گے توبہ پیر مغاں کی دکان پر
نیا مضمون لانا کاٹنا کوہ و جبل کا ہے
نہیں ہم شعر کہتے پیشۂ فرہاد کہتے ہیں
مثال آئنہ ہم جب سے حیرتی ہیں ترے
کہ جن دنوں میں نہ تھا تو سنگار سے واقف
مدلل جو سخن اپنا ہے وہ برہان قاطع ہے
طبیعت میں روانی ہے زیادہ ہفت قلزم سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھ سے ان آنکھوں کو وحشت ہے مگر مجھ کو ہے عشق
کھیلا کرتا ہوں شکار آہوئے صحرائی کا