Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

اسد علی خان قلق

1820 - 1879 | لکھنؤ, انڈیا

اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کے ممتاز درباری ،آفتاب الدولہ شمس جنگ کے خطاب سے سرفراز شاعر

اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کے ممتاز درباری ،آفتاب الدولہ شمس جنگ کے خطاب سے سرفراز شاعر

اسد علی خان قلق کے اشعار

4K
Favorite

باعتبار

کوتاہ عمر ہو گئی اور یہ نہ کم ہوئی

اے جان آ کے طول شب انتظار دیکھ

اے بے خودی دل مجھے یہ بھی خبر نہیں

کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا

قلقؔ غزلیں پڑھیں گے جائے قرآں سب پس مردن

ہماری قبر پر جب مجمع اہل سخن ہوگا

چلا ہے چھوڑ کے تنہا کدھر تصور یار

شب فراق میں تھا تجھ سے مشغلہ دل کا

راہ حق میں کھیل جاں بازی ہے او ظاہر پرست

کیا تماشا دار پر منصور نے نٹ کا کیا

پھر مجھ سے اس طرح کی نہ کیجے گا دل لگی

خیر اس گھڑی تو آپ کا میں کر گیا لحاظ

کعبے سے کھینچ لایا ہم کو صنم کدے میں

بن کر کمند الفت زنار برہمن کا

صید خائف وہ ہوں اس صید گہہ عالم میں

اپنے سائے کو سمجھتا ہوں کہ صیاد آیا

خفا ہو گالیاں دو چاہے آنے دو نہ آنے دو

میں بوسے لوں گا سوتے میں مجھے لپکا ہے چوری کا

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا

بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا

کرو تم مجھ سے باتیں اور میں باتیں کروں تم سے

کلیم اللہ ہو جاؤں میں اعجاز تکلم سے

یہی انصاف ترے عہد میں ہے اے شہ حسن

واجب القتل محبت کے گنہ گار ہیں سب

اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی

دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو

پھر گیا آنکھوں میں اس کان کے موتی کا خیال

گوش گل تک نہ کوئی قطرۂ شبنم آیا

یاد دلوایئے ان کو جو کبھی وعدۂ وصل

تو وہ کس ناز سے فرماتے ہیں ہم بھول گئے

ہوا میں رند مشرب خاک مر کر اس تمنا میں

نماز آخر پڑھیں گے وہ کسی دن تو تیمم سے

یوں روح تھی عدم میں مری بہر تن اداس

غربت میں جس طرح ہو غریب الوطن اداس

منزل ہے اپنی اپنی قلقؔ اپنی اپنی گور

کوئی نہیں شریک کسی کے گناہ میں

کریں گے ہم سے وہ کیوں کر نباہ دیکھتے ہیں

ہم ان کی تھوڑے دنوں اور چاہ دیکھتے ہیں

میں وہ میکش ہوں ملی ہے مجھ کو گھٹی میں شراب

شیر کے بدلے پیا ہے میں نے شیرہ تاک کا

اگر نہ جامۂ ہستی مرا نکل جاتا

تو اور تھوڑے دنوں یہ لباس چل جاتا

بے سبب غنچے چٹکتے نہیں گلزاروں میں

پھر رہا ہے یہ ڈھنڈھورا تری رعنائی کا

جب ہوا گرم کلام مختصر مہکا دیا

عطر کھینچا یار کے لب نے گل تقریر کا

وہ رند ہوں کہ مجھے ہتھکڑی سے بیعت ہے

ملا ہے گیسوئے جاناں سے سلسلہ دل کا

عمر تو اپنی ہوئی سب بت پرستی میں بسر

نام کو دنیا میں ہیں اب صاحب اسلام ہم

طلائی رنگ جاناں کا اگر مضمون لکھوں خط میں

تو ہالہ گرد حرفوں کے بنے سونے کے پانی کا

پوچھا صبا سے اس نے پتا کوئے یار کا

دیکھو ذرا شعور ہمارے غبار کا

بت پرستی میں بھی بھولی نہ مجھے یاد خدا

ہاتھ میں سبحہ گلے میں مرے زنار رہا

گردش میں ساتھ ان آنکھوں کا کوئی نہ دے سکا

دن رہ گیا کبھی تو کبھی رات رہ گئی

ہمت کا زاہدوں کی سراسر قصور تھا

مے خانہ خانقاہ سے ایسا نہ دور تھا

یوں راہی عدم ہوئی با وصف عذر لنگ

محسوس آج تک نہ ہوئے نقش پائے شمع

کفر و اسلام کے جھگڑوں سے چھڑایا صد شکر

قید مذہب سے جنوں نے مجھے آزاد کیا

خط میں لکھی ہے حقیقت دشت گردی کی اگر

نامہ بر جنگلی کبوتر کو بنانا چاہئے

مبارک دیر و کعبہ ہوں قلقؔ شیخ و برہمن کو

بچھائیں گے مصلیٰ چل کے ہم محراب ابرو میں

ستم وہ تم نے کیے بھولے ہم گلہ دل کا

ہوا تمہارے بگڑنے سے فیصلہ دل کا

کچھ خبر دیتا نہیں اس کی دل آگہ مجھے

وحی کے مانند اب موقوف ہے الہام کا

نیا مضمون لانا کاٹنا کوہ و جبل کا ہے

نہیں ہم شعر کہتے پیشۂ فرہاد کہتے ہیں

دست جنوں نے پھاڑ کے پھینکا ادھر ادھر

دامن ابد میں ہے تو گریباں ازل میں ہے

پھنس گیا ہے دام کاکل میں بتان ہند کے

طائر دل کو ہمارے رام دانا چاہئے

بہار آتے ہی زخم دل ہرے سب ہو گئے میرے

ادھر چٹکا کوئی غنچہ ادھر ٹوٹا ہر اک ٹانکا

اے پری زاد جو تو رقص کرے مستی میں

دانۂ تاک ہر اک پاؤں میں گھنگھرو ہو جائے

مثال آئنہ ہم جب سے حیرتی ہیں ترے

کہ جن دنوں میں نہ تھا تو سنگار سے واقف

سندور اس کی مانگ میں دیتا ہے یوں بہار

جیسے دھنک نکلتی ہے ابر سیاہ میں

ترے ہونٹھوں سے شرما کر پسینے میں ہوا یہ تر

خضر نے خود عرق پونچھا جبین آب حیواں کا

برابر ایک سے مصرع نظر آتے ہیں ابرو کے

توارد کہئے یا ہے ایک میں مضمون چوری کا

گلگشت باغ کو جو گیا وہ گل فرنگ

غنچے سلام کرتے تھے ٹوپی اتار کے

بنا کر تل رخ روشن پر دو شوخی سے سے کہتے ہیں

یہ کاجل ہم نے یارا ہے چراغ ماہ تاباں پر

دل خستہ ہو تو لطف اٹھے کچھ اپنی غزل کا

مطلب کوئی کیا سمجھے گا مستوں کی زٹل کا

آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل

اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو

یار کی فرط نزاکت کا ہوں میں شکر گزار

دھیان بھی اس کا مرے دل سے نکلنے نہ دیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے