Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anjum Saleemi's Photo'

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

انجم سلیمی کے اشعار

12.2K
Favorite

باعتبار

اداسی کھینچ لائی ہے یہاں تک

میں آنسو تھا سمندر میں پڑا ہوں

کسی طرح سے نظر مطمئن نہیں ہوتی

ہر ایک شے کو دوبارہ بدل کے دیکھتا ہوں

تیرے اندر کی اداسی کے مشابہ ہوں میں

خال و خد سے نہیں آواز سے پہچان مجھے

میں آج خود سے ملاقات کرنے والا ہوں

جہاں میں کوئی بھی میرے سوا نہ رہ جائے

خاک چھانی نہ کسی دشت میں وحشت کی ہے

میں نے اک شخص سے اجرت پہ محبت کی ہے

وہ اک دن جانے کس کو یاد کر کے

مرے سینے سے لگ کے رو پڑا تھا

شب جمال سلامت رہیں ترے پری زاد

جنہیں میں خواب سناتا ہوں رقص کرتا ہوں

معذرت روندے ہوئے پھولوں سے کر لوں تو چلوں

منتظر شہر میں تاخیر سے آیا ہوا میں

زمین ہانپنے لگتی ہے اک جگہ رک کر

میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہوں رقص کرتا ہوں

میری مٹی سے بہت خوش ہیں مرے کوزہ گر

ویسا بن جاتا ہوں میں جیسا بناتے ہیں مجھے

بس اندھیرے نے رنگ بدلا ہے

دن نہیں ہے سفید رات ہے یہ

مٹ کے آسودہ ہو گیا ہوں میں

خاک میں خاک زاد مل گیا ہے

میں اندھیرے میں ہوں مگر مجھ میں

روشنی نے جگہ بنا لی ہے

ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث

آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے

ہجر کو بیچ میں نہیں چھوڑا

سب سے پہلے اسے تمام کیا

کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے

کیسی پیاری روحوں کو میری اولاد کیا

خود تک مری رسائی نہیں ہو رہی ابھی

حیرت ہے اس طرف بھی نہیں ہوں جدھر میں ہوں

درد سے بھرتا رہا ذات کے خالی پن کو

تھوڑا تھوڑا یوں ہی بھرپور کیا میں نے مجھے

یہ محبت کا جو انبار پڑا ہے مجھ میں

اس لیے ہے کہ مرا یار پڑا ہے مجھ میں

ٹھیک سے یاد بھی نہیں اب تو

عشق نے مجھ میں کب قیام کیا

کیسی ہوتی ہیں اداسی کی جڑیں

آ دکھاؤں تجھے دل کے ریشے

کس زمانے میں مجھ کو بھیج دیا

مجھ سے تو رائے بھی نہ چاہی مری

تو مرے صبر کا اندازہ لگا سکتا ہے

تیری صحبت میں ترا ہجر گزارا ہے میاں

کچھ تو کھنچی کھنچی سی تھی ساعت وصال کی

کچھ یوں بھی فاصلے پہ مجھے رکھ دیا گیا

تجھ سے یہ کیسا تعلق ہے جسے جب چاہوں

ختم کر دیتا ہوں آغاز بھی کر لیتا ہوں

کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے

سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے

اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو

پھر ایک دن یوں ہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے

کہو ہوا سے کہ اتنی چراغ پا نہ پھرے

میں خود ہی اپنے دیے کو بجھانے والا ہوں

ہجر میں بھی ہم ایک دوسرے کے

آمنے سامنے پڑے ہوئے تھے

ہاں زمانے کی نہیں اپنی تو سن سکتا تھا

کاش خود کو ہی کبھی بیٹھ کے سمجھاتا میں

میں دل گرفتہ تجھے گنگناتا رہتا ہوں

بہت دنوں سے مرے یار زیر لب ہے تو

ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے

آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے

میں خود سے مل کے کبھی صاف صاف کہہ دوں گا

مجھے پسند نہیں ہے مداخلت اپنی

اتنا ترسایا گیا مجھ کو محبت سے کہ اب

اک محبت پہ قناعت نہیں کر سکتا میں

ادھ بنے خوابوں کا انبار پڑا ہے دل میں

آنکھ والوں کے لیے ہے یہ امانت میری

چل تو سکتا تھا میں بھی پانی پر

میں نے دریا کا احترام کیا

جست بھرتا ہوا فردا کے دہانے کی طرف

جا نکلتا ہوں کسی گزرے زمانے کی طرف

ایک دن میری خامشی نے مجھے

لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا

میں ایک ایک تمنا سے پوچھ بیٹھا ہوں

مجھے یقیں نہیں آتا کہ میرا سب ہے تو

مجھے پتہ ہے کہ برباد ہو چکا ہوں میں

تو میرا سوگ منا مجھ کو سوگوار نہ کر

اس خدا کی تلاش ہے انجمؔ

جو خدا ہو کے آدمی سا لگے

یہ بھی آغاز محبت میں بہت ہے مجھ کو

دیکھتا لیتا ہوں اسے ہاتھ لگا لیتا ہوں

آگے بچھی پڑی رہیں اس کے بدن کی نعمتیں

اس نے بہت کہا مگر میں نے اسے چکھا نہیں

آنکھ کھل کر ابھی مانوس نہیں ہو پاتی

اور دیوار سے تصویر بدل جاتی ہے

ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ

تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی

میں چیختا رہا کچھ اور بھی ہے میرا علاج

مگر یہ لوگ تمہارا ہی نام لیتے رہے

سبھی دروازے کھلے ہیں مری تنہائی کے

ساری دنیا کو میسر ہے رفاقت میری

ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے ادھر

سو اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے

پتھر میں کون جونک لگائے گا میرے دوست

دل ہے تو مبتلا بھی کہیں ہونا چاہئے

کر رہا ہوں تجھے خوشی سے بسر

زندگی تجھ سے داد چاہتا ہوں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے