انجم سلیمی کے اشعار
اداسی کھینچ لائی ہے یہاں تک
میں آنسو تھا سمندر میں پڑا ہوں
کسی طرح سے نظر مطمئن نہیں ہوتی
ہر ایک شے کو دوبارہ بدل کے دیکھتا ہوں
تیرے اندر کی اداسی کے مشابہ ہوں میں
خال و خد سے نہیں آواز سے پہچان مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں آج خود سے ملاقات کرنے والا ہوں
جہاں میں کوئی بھی میرے سوا نہ رہ جائے
خاک چھانی نہ کسی دشت میں وحشت کی ہے
میں نے اک شخص سے اجرت پہ محبت کی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ اک دن جانے کس کو یاد کر کے
مرے سینے سے لگ کے رو پڑا تھا
-
موضوع : یاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شب جمال سلامت رہیں ترے پری زاد
جنہیں میں خواب سناتا ہوں رقص کرتا ہوں
معذرت روندے ہوئے پھولوں سے کر لوں تو چلوں
منتظر شہر میں تاخیر سے آیا ہوا میں
زمین ہانپنے لگتی ہے اک جگہ رک کر
میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہوں رقص کرتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میری مٹی سے بہت خوش ہیں مرے کوزہ گر
ویسا بن جاتا ہوں میں جیسا بناتے ہیں مجھے
ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث
آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے
کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے
کیسی پیاری روحوں کو میری اولاد کیا
-
موضوع : ماں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خود تک مری رسائی نہیں ہو رہی ابھی
حیرت ہے اس طرف بھی نہیں ہوں جدھر میں ہوں
درد سے بھرتا رہا ذات کے خالی پن کو
تھوڑا تھوڑا یوں ہی بھرپور کیا میں نے مجھے
یہ محبت کا جو انبار پڑا ہے مجھ میں
اس لیے ہے کہ مرا یار پڑا ہے مجھ میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کس زمانے میں مجھ کو بھیج دیا
مجھ سے تو رائے بھی نہ چاہی مری
تو مرے صبر کا اندازہ لگا سکتا ہے
تیری صحبت میں ترا ہجر گزارا ہے میاں
کچھ تو کھنچی کھنچی سی تھی ساعت وصال کی
کچھ یوں بھی فاصلے پہ مجھے رکھ دیا گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تجھ سے یہ کیسا تعلق ہے جسے جب چاہوں
ختم کر دیتا ہوں آغاز بھی کر لیتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے
سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے
اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یوں ہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے
کہو ہوا سے کہ اتنی چراغ پا نہ پھرے
میں خود ہی اپنے دیے کو بجھانے والا ہوں
ہاں زمانے کی نہیں اپنی تو سن سکتا تھا
کاش خود کو ہی کبھی بیٹھ کے سمجھاتا میں
میں دل گرفتہ تجھے گنگناتا رہتا ہوں
بہت دنوں سے مرے یار زیر لب ہے تو
ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے
آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے
میں خود سے مل کے کبھی صاف صاف کہہ دوں گا
مجھے پسند نہیں ہے مداخلت اپنی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اتنا ترسایا گیا مجھ کو محبت سے کہ اب
اک محبت پہ قناعت نہیں کر سکتا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ادھ بنے خوابوں کا انبار پڑا ہے دل میں
آنکھ والوں کے لیے ہے یہ امانت میری
چل تو سکتا تھا میں بھی پانی پر
میں نے دریا کا احترام کیا
جست بھرتا ہوا فردا کے دہانے کی طرف
جا نکلتا ہوں کسی گزرے زمانے کی طرف
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک دن میری خامشی نے مجھے
لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا
میں ایک ایک تمنا سے پوچھ بیٹھا ہوں
مجھے یقیں نہیں آتا کہ میرا سب ہے تو
مجھے پتہ ہے کہ برباد ہو چکا ہوں میں
تو میرا سوگ منا مجھ کو سوگوار نہ کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ بھی آغاز محبت میں بہت ہے مجھ کو
دیکھتا لیتا ہوں اسے ہاتھ لگا لیتا ہوں
آگے بچھی پڑی رہیں اس کے بدن کی نعمتیں
اس نے بہت کہا مگر میں نے اسے چکھا نہیں
آنکھ کھل کر ابھی مانوس نہیں ہو پاتی
اور دیوار سے تصویر بدل جاتی ہے
ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ
تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی
میں چیختا رہا کچھ اور بھی ہے میرا علاج
مگر یہ لوگ تمہارا ہی نام لیتے رہے
سبھی دروازے کھلے ہیں مری تنہائی کے
ساری دنیا کو میسر ہے رفاقت میری
ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے ادھر
سو اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے
پتھر میں کون جونک لگائے گا میرے دوست
دل ہے تو مبتلا بھی کہیں ہونا چاہئے