Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anjum Saleemi's Photo'

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

انجم سلیمی کے اشعار

13.5K
Favorite

باعتبار

ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے

آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے

ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ

تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی

تم اکیلے میں ملے ہی نہیں ورنہ تم کو

اور ہی طرح کے اک شخص سے ملواتا میں

اتنا بے تاب نہ ہو مجھ سے بچھڑنے کے لیے

تجھ کو آنکھوں سے نہیں دل سے جدا کرنا ہے

روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں

ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں

مجھے پتہ ہے کہ برباد ہو چکا ہوں میں

تو میرا سوگ منا مجھ کو سوگوار نہ کر

اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو

پھر ایک دن یوں ہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے

چل تو سکتا تھا میں بھی پانی پر

میں نے دریا کا احترام کیا

کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے

کیسی پیاری روحوں کو میری اولاد کیا

تو مرے صبر کا اندازہ لگا سکتا ہے

تیری صحبت میں ترا ہجر گزارا ہے میاں

ایک بے نام اداسی سے بھرا بیٹھا ہوں

آج دل کھول کے رونے کی ضرورت ہے مجھے

مجھ سے خالی ہے میرا آئینہ

آنسوؤں سے بھرا ہوا ہوں میں

میں چیختا رہا کچھ اور بھی ہے میرا علاج

مگر یہ لوگ تمہارا ہی نام لیتے رہے

میں جس چراغ سے بیٹھا تھا لو لگائے ہوئے

پتہ چلا وہ اندھیرے میں رکھ رہا تھا مجھے

بس اندھیرے نے رنگ بدلا ہے

دن نہیں ہے سفید رات ہے یہ

کس نے آباد کیا ہے مری ویرانی کو

عشق نے؟ عشق تو بیمار پڑا ہے مجھ میں

اس خدا کی تلاش ہے انجمؔ

جو خدا ہو کے آدمی سا لگے

ایک دن میری خامشی نے مجھے

لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا

وہ اک دن جانے کس کو یاد کر کے

مرے سینے سے لگ کے رو پڑا تھا

اتنا ترسایا گیا مجھ کو محبت سے کہ اب

اک محبت پہ قناعت نہیں کر سکتا میں

کر رہا ہوں تجھے خوشی سے بسر

زندگی تجھ سے داد چاہتا ہوں

تیرے اندر کی اداسی کے مشابہ ہوں میں

خال و خد سے نہیں آواز سے پہچان مجھے

اداسی کھینچ لائی ہے یہاں تک

میں آنسو تھا سمندر میں پڑا ہوں

میں اندھیرے میں ہوں مگر مجھ میں

روشنی نے جگہ بنا لی ہے

ہاں زمانے کی نہیں اپنی تو سن سکتا تھا

کاش خود کو ہی کبھی بیٹھ کے سمجھاتا میں

سبھی دروازے کھلے ہیں مری تنہائی کے

ساری دنیا کو میسر ہے رفاقت میری

میری مٹی سے بہت خوش ہیں مرے کوزہ گر

ویسا بن جاتا ہوں میں جیسا بناتے ہیں مجھے

کیسی ہوتی ہیں اداسی کی جڑیں

آ دکھاؤں تجھے دل کے ریشے

میں ایک ایک تمنا سے پوچھ بیٹھا ہوں

مجھے یقیں نہیں آتا کہ میرا سب ہے تو

پتھر میں کون جونک لگائے گا میرے دوست

دل ہے تو مبتلا بھی کہیں ہونا چاہئے

ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث

آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے

ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے ادھر

سو اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے

میں خود سے مل کے کبھی صاف صاف کہہ دوں گا

مجھے پسند نہیں ہے مداخلت اپنی

کہو ہوا سے کہ اتنی چراغ پا نہ پھرے

میں خود ہی اپنے دیے کو بجھانے والا ہوں

تجھ سے یہ کیسا تعلق ہے جسے جب چاہوں

ختم کر دیتا ہوں آغاز بھی کر لیتا ہوں

پرانا زہر نئے نام سے ملا ہے مجھے

وہ آستین نہیں کینچلی بدل رہا تھا

جب خدا بھی نہیں تھا ساتھ مرے

مجھ پہ بیتی ہے ایسی تنہائی

خواب شرمندۂ وصال ہوا

ہجر میں نیند آ گئی تھی مجھے

اپنی تصدیق مجھے تیری گواہی سے ہوئی

تو کہاں سے مرے ہونے کی خبر لایا ہے

کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے

سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے

کھلی ہوئی ہے جو کوئی آسان راہ مجھ پر

میں اس سے ہٹ کے اک اور رستہ بنا رہا ہوں

عشق فرما لیا تو سوچتا ہوں

کیا مصیبت پڑی ہوئی تھی مجھے

ٹھیک سے یاد بھی نہیں اب تو

عشق نے مجھ میں کب قیام کیا

برہم ہیں مجھ پہ اس لیے دونوں طرف کے لوگ

دیوار اٹھ گئی تھی تو در کیوں بنایا ہے

بجھنے دے سب دیئے مجھے تنہائی چاہئے

کچھ دیر کے لیے مجھے تنہائی چاہئے

دوستو میرے لیے کوئی بھی افسردہ نہ ہو

خوش دلی سے دم رخصت مجھے رخصت کیا جائے

کسی طرح سے نظر مطمئن نہیں ہوتی

ہر ایک شے کو دوبارہ بدل کے دیکھتا ہوں

میں آج خود سے ملاقات کرنے والا ہوں

جہاں میں کوئی بھی میرے سوا نہ رہ جائے

آگے بچھی پڑی رہیں اس کے بدن کی نعمتیں

اس نے بہت کہا مگر میں نے اسے چکھا نہیں

درد سے بھرتا رہا ذات کے خالی پن کو

تھوڑا تھوڑا یوں ہی بھرپور کیا میں نے مجھے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے