یاد رفتگاں پر اشعار
رفتگاں کی یاد سے کسے
چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ گزرے ہوئے لوگوں کی یادیں برابر پلٹتی رہتی ہیں اور انسان بے چینی کے شدید لمحات سے گزرتا ہے ۔ تخلیقی ذہن کی حساسیت نے اس موضوع کو اور بھی زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے اور ایسے ایسے باریک احساسات لفظوں میں قید ہوگئے ہیں جن سے ہم سب گزرتے تو ہیں لیکن ان پر رک کر سوچ نہیں سکتے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور اپنے اپنے رفتگاں کی نئے سرے سے بازیافت کیجئے ۔
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے
-
موضوعات : دوستاور 1 مزید
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
-
موضوعات : چانداور 1 مزید
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
-
موضوعات : خراجاور 1 مزید
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
-
موضوع : مشہور اشعار
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
-
موضوعات : خراجاور 1 مزید
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
وہ لوگ اپنے آپ میں کتنے عظیم تھے
جو اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کر سکے
اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا
ہمیں پھر آج پرانے دیار لے آئی
-
موضوع : یاد
راستو کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
تشریح
غالب کا یہ مشہور شعر معنوی اور فنی دونوں سطحوں پر کمال کا درجہ رکھتا ہے۔ شعر کی مناسبتیں بڑی دلچسپ ہیں۔ لالہ و گل کی مناسبت سے صورتیں اور ان دونوں کی رعایت سے خاک، نمایاں کی مناسبت سے پنہاں اور ان دونوں کی رعایت سے ’خاک‘ ہر پہلو سے غور طلب ہے۔ انسانی صورتوں کو لالہ و گل سے مشابہ کرنا اور پھر ان کی نمود کے لئے خاک کو ذریعہ بنانا غالب کا ہی کمال ہے۔ اور اس سے بڑھ کر کمال یہ ہے کہ لالہ و گل کو انسانی صورتوں کا مرہونِ منت بتایا ہے۔ اور وہ بھی تب جب وہ خاک میں مل جاتی ہیں۔
’’سب کہاں کچھ‘‘ کہہ کر گویا یہ بات باور کرائی ہے کہ یہ جو لالہ و گل ہیں یہ ان انسانی صورتوں میں سے کچھ ہی میں نمودار ہوئے ہیں جو مرنے کے بعد قبر میں سماتی ہیں۔ ‘‘ ’’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی‘‘ مطلب کیسے کیسے حسین و جمیل لوگ خاک میں مل گئے۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ زمین میں مرنے کے بعد بڑے خوبصورت لوگ مل جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہی لالہ و گل کی صورتوں میں نمایاں ہوجاتی ہیں۔ گویا لالہ و گل کی صوررت میں وہ پری جمال لوگ دوسرا جنم لیتے ہیں یا اگر ان خوبصورت لوگوں میں سے سب کے سب لالہ وگل کی صورت میں نمایاں ہوں گیں تو ساری زمین بھر جائے گی۔
شفق سوپوری
-
موضوعات : خراجاور 1 مزید
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے
کتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ
جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کر دیا
جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا
جن پہ نازاں تھے یہ زمین و فلک
اب کہاں ہیں وہ صورتیں باقی
وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
-
موضوع : خراج
وہ جن کے نقش قدم دیکھنے میں آتے ہیں
اب ایسے لوگ تو کم دیکھنے میں آتے ہیں
جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے
وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں
کیسے قصے تھے کہ چھڑ جائیں تو اڑ جاتی تھی نیند
کیا خبر تھی وہ بھی حرف مختصر ہو جائیں گے
محبتیں بھی اسی آدمی کا حصہ تھیں
مگر یہ بات پرانے زمانے والی ہے