Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عیادت پر اشعار

عیادت پر کی جانے والی

شاعری بہت دلچسپ اور مزے دار پہلو رکھتی ہے ۔ عاشق بیمار ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ معشوق اس کی عیادت کیلئے آئے ۔ اس لئے وہ اپنی بیماری کے طول پکڑنے کی دعا بھی مانگتا ہے لیکن معشوق ایسا جفا پیشہ ہے کہ عیادت کیلئے بھی نہیں آتا ۔ یہ رنگ ایک عاشق کا ہی ہو سکتا ہے کہ وہ سو بار بیمار پڑنے کا فریب کرتا ہے لیکن اس کا مسیح ایک بار بھی عیادت کو نہیں آتا ۔ یہ صرف ایک پہلو ہے اس کے علاوہ بھی عیادت کے تحت بہت دلچسپ مضامین باندھے گئے ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔

پوچھ لیتے وہ بس مزاج مرا

کتنا آسان تھا علاج مرا

فہمی بدایونی

آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج

عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

احسان دانش

اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ

تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا

ابن انشا

دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر

کہنے کو یہ ہے کہ آئے ہیں عیادت کر کے

حسرتؔ موہانی

آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت

احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا

فانی بدایونی

تندرستی سے تو بہتر تھی مری بیماری

وہ کبھی پوچھ تو لیتے تھے کہ حال اچھا ہے

حفیظ جونپوری

عیادت کو مری آ کر وہ یہ تاکید کرتے ہیں

تجھے ہم مار ڈالیں گے نہیں تو جلد اچھا ہو

داغؔ دہلوی

آیا نہ ایک بار عیادت کو تو مسیح

سو بار میں فریب سے بیمار ہو چکا

امیر مینائی

آنے لگے ہیں وہ بھی عیادت کے واسطے

اے چارہ گر مریض کو اچھا کیا نہ جائے

حمید جالندھری

بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ

دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ

مومن خاں مومن

عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے

مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے

مینا کماری ناز

آن کے اس بیمار کو دیکھے تجھ کو بھی توفیق ہوئی

لب پر اس کے نام تھا تیرا جب بھی درد شدید ہوا

ابن انشا

اک بار اور میری عیادت کو آئیے

اچھی طرح سے میں ابھی اچھا ہوا نہیں

حکیم فصیح الدین رنج

وہ عیادت کو تو آیا تھا مگر جاتے ہوئے

اپنی تصویریں بھی کمرے سے اٹھا کر لے گیا

عرش صدیقی

کون آتا ہے عیادت کے لیے دیکھیں فراغؔ

اپنے جی کو ذرا ناساز کیے دیتے ہیں

فراغ روہوی

جب نہ تھا ضبط تو کیوں آئے عیادت کے لیے

تم نے کاہے کو مرا حال پریشاں دیکھا

حفیظ جونپوری

وہ عیادت کے لئے آئے ہیں لو اور سہی

آج ہی خوبیٔ تقدیر سے حال اچھا ہے

نامعلوم

کبھو بیمار سن کر وہ عیادت کو تو آتا تھا

ہمیں اپنے بھلے ہونے سے وہ آزار بہتر تھا

شیخ ظہور الدین حاتم

وہ عیادت کو نہ آیا کریں میں در گزرا

حال دل پوچھ کے اور آگ لگا جاتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

ایک دن پوچھا نہ حاتمؔ کو کبھو اس نے کہ دوست

کب سے تو بیمار ہے اور کیا تجھے آزار ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

لے میری خبر چشم مرے یار کی کیوں کر

بیمار عیادت کرے بیمار کی کیوں کر

تاباں عبد الحی

Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

Register for free
بولیے