Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Meer Hasan's Photo'

میر حسن

1717 - 1786 | لکھنؤ, انڈیا

مثنوی کے انتہائی مقبول شاعر- 'سحر البیان' کے خالق

مثنوی کے انتہائی مقبول شاعر- 'سحر البیان' کے خالق

میر حسن کے اشعار

17.1K
Favorite

باعتبار

مت پونچھ ابروئے عرق آلود ہاتھ سے

لازم ہے احتیاط کہ ہے آب دار تیغ

دکھا دیں گے چالاکی ہاتھوں کی ناصح

جو ثابت جنوں سے گریباں رہے گا

لگایا محبت کا جب یاں شجر

شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا

دروازہ گو کھلا ہے اجابت کا پر حسنؔ

ہم کس کس آرزو کو خدا سے طلب کریں

دیر و کعبہ ہی کو جانا کچھ نہیں لازم غرض

جس طرف پائی خبر اس کی ادھر کو اٹھ گئے

اثر ہووے نہ ہووے پر بلا سے جی تو بہلے گا

نکالا شغل تنہائی میں میں ناچار رونے کا

خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن

جس طرف دل کی طبیعت ہو ادھر کو چلیے

کر کے بسمل نہ تو نے پھر دیکھا

بس اسی غم میں جان دی ہم نے

تو رہا دل میں دل رہا تجھ میں

تس پہ تیرا ملاپ ہو نہ سکا

مر گیا ہوتا نہ ہوتی قہر میں شامل جو مہر

صحت دل اس دوائے معتدل نے کی غرض

میں تو اس ڈر سے کچھ نہیں کہتا

تو مبادا اداس ہو جاوے

مانند عکس دیکھا اسے اور نہ مل سکے

کس رو سے پھر کہیں گے کہ روز وصال تھا

شیخ تو نیک و بد دختر رز کیا جانے

وہ بچاری تو ترے پاس نہ آئی نہ گئی

دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا

یاں لوگ عجب عجب ملیں گے

جب لگے ہوں گے جدا حضرت دل ہم نے کہا

پھر بھی ملئے گا کبھی ہم سے کہا یا قسمت

جان و دل ہیں اداس سے میرے

اٹھ گیا کون پاس سے میرے

بندا بتوں کا کس کے کہے سے ہوا یہ دل

حق کی طرف سے کیا اسے الہام کچھ ہوا

کہتا ہے تو کہ تجھ کو پاتا نہیں کبھی گھر

یہ جھوٹ سچ ہے دیکھوں آج اپنے گھر رہوں گا

یہ دل کچھ آپھی ہو جاتا ہے بند اور آپھی کھلتا ہے

نہ میں قید اس کو کرتا ہوں نہ میں آزاد کرتا ہوں

تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے

یا رب اس گھر میں جو آوے نہ وہ مہماں نکلے

آساں نہ سمجھیو تم نخوت سے پاک ہونا

اک عمر کھو کے ہم نے سیکھا ہے خاک ہونا

محبت کا رستہ عجب گرم تھا

قدم جب دھرا خاک پر جل گیا

تاکہ عبرت کریں اور غیر نہ دیکھیں تجھ کو

جی میں آتا ہے نکلوائیے دو چار کی آنکھ

میں بھی اک معنیٔ پیچیدہ عجب تھا کہ حسنؔ

گفتگو میری نہ پہنچی کبھی تقریر تلک

آشنا بے وفا نہیں ہوتا

بے وفا آشنا نہیں ہوتا

ظلم کب تک کیجئے گا اس دل ناشاد پر

اب تو اس بندہ پہ ٹک کیجے کرم بندہ نواز

وہ تاب و تواں کہاں ہے یا رب

جو اس دل ناتواں میں تب تھا

نوجوانی کی دید کر لیجے

اپنے موسم کی عید کر لیجے

کیوں ان دنوں حسنؔ تو اتنا جھٹک گیا ہے

ظالم کہیں ترا دل کیا پھر اٹک گیا ہے

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں

یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں

میں حشر کو کیا روؤں کہ اٹھ جاتے ہی تیرے

برپا ہوئی اک مجھ پہ قیامت تو یہیں اور

چاہا تھا غرض میں نے عشق ایسے ہی دلبر کا

گر مجھ پہ بہت گزرا غم اس میں تو کم گزرا

اپنے کہنے میں تو دل مطلق نہیں کس سے کہیں

کیا کریں اے ناصحو کچھ تو کرو ارشاد تم

غمزے نے لے کے دل کو ادا کے کیا سپرد

غمزے سے دل کو لیں کہ ادا سے طلب کریں

کیا جانئے کہ باہم کیوں ہم میں اور اس میں

موقوف ہو گیا ہے اب وہ تپاک ہونا

وصل میں بھی نہ گئی چھیڑ یہی کہتا رہ

کہ تجھے ایسا بھلا دوں کہ بہت یاد کرے

سو سو طرح کے وصل نے مرہم رکھے ولے

زخم فراق ہیں مرے ویسے ہی تر ہنوز

بس اب چوپڑ اٹھاؤ اور کچھ باتیں کریں صاحب

جو میں جیتا تو تم جیتے جو تم ہارے تو میں ہارا

ناخن نہ پہنچا آبلۂ دل تلک حسنؔ

ہم مر گئے یہ ہم سے نہ آخر گرہ گئی

ذات گر پوچھیے آدم کی تو ہے ایک وہی

لاکھ یوں کہنے کو ٹھہرائیے ذاتیں دل میں

سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے

تو خاک سے بنا ہے ترا گھر زمین ہے

جس طرح چاہا لکھیں دل نے کہا یوں مت لکھ

سیکڑوں بار دھرا اور اٹھایا کاغذ

جھوٹ موٹ ان سے میں کچھ مصلحتاً بولوں گا

سچ ہے تو بول نہ اٹھیو دل آگاہ کہ جھوٹ

مت بخت خفتہ پر مرے ہنس اے رقیب تو

ہوگا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا

قسمت نے دور ایسا ہی پھینکا ہمیں کہ ہم

پھر جیتے جی پہنچ نہ سکے اپنے یار تک

کیا تھا کہ آج ناقہ بے ساربان پایا

مجنوں کے ہاتھ ہم نے اس کی مہار دیکھی

گو بھلے سب ہیں اور میں ہوں برا

کیا بھلوں میں برا نہیں ہوتا

کیوں گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں

لگتے لگتے جی قفس میں بھی مرا لگ جائے گا

دل اپنا انہیں باتوں سے اٹھ جاتا ہے تجھ سے

جا بیٹھے ہے تو مل کو جو ہر ناکس و کس میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے