دواکر راہی کے اشعار
غصے میں برہمی میں غضب میں عتاب میں
خود آ گئے ہیں وہ مرے خط کے جواب میں
اس دور ترقی کے انداز نرالے ہیں
ذہنوں میں اندھیرے ہیں سڑکوں پہ اجالے ہیں
بہت آسان ہے دو گھونٹ پی لینا تو اے راہیؔ
بڑی مشکل سے آتے ہیں مگر آداب مے خانہ
اگر اے ناخدا طوفان سے لڑنے کا دم خم ہے
ادھر کشتی نہ لے آنا یہاں پانی بہت کم ہے
اگر موجیں ڈبو دیتیں تو کچھ تسکین ہو جاتی
کناروں نے ڈبویا ہے مجھے اس بات کا غم ہے
وقار خون شہیدان کربلا کی قسم
یزید مورچہ جیتا ہے جنگ ہارا ہے
وقت برباد کرنے والوں کو
وقت برباد کر کے چھوڑے گا
اس انتظار میں بیٹھے ہیں ان کی محفل میں
کہ وہ نگاہ اٹھائیں تو ہم سلام کریں
وقت کو بس گزار لینا ہی
دوستو کوئی زندگانی ہے
اس سے پہلے کہ لوگ پہچانیں
خود کو پہچان لو تو بہتر ہے
عین فطرت ہے کہ جس شاخ پہ پھل آئیں گے
انکساری سے وہی شاخ لچک جائے گی
عبث الزام مت دو مشکلات راہ کو راہیؔ
تمہارے ہی ارادے میں کمی معلوم ہوتی ہے
سوال یہ ہے کہ اس پر فریب دنیا میں
خدا کے نام پہ کس کس کا احترام کریں