اکبر حیدرآبادی کے اشعار
چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی
جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا
-
موضوع : ترغیبی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل دبا جاتا ہے کتنا آج غم کے بار سے
کیسی تنہائی ٹپکتی ہے در و دیوار سے
چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی
خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
-
موضوع : موت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آنکھ میں آنسو کا اور دل میں لہو کا کال ہے
ہے تمنا کا وہی جو زندگی کا حال ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لبوں پر تبسم تو آنکھوں میں آنسو تھی دھوپ ایک پل میں تو اک پل میں بارش
ہمیں یاد ہے باتوں باتوں میں ان کا ہنسانا رلانا رلانا ہنسانا
خود پرستی خدا نہ بن جائے
احتیاطاً گناہ کرتا ہوں
آنکھوں کو دیکھنے کا سلیقہ جب آ گیا
کتنے نقاب چہرۂ اسرار سے اٹھے
-
موضوع : نقاب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ
جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو
ہمت والے پل میں بدل دیتے ہیں دنیا کو
سوچنے والا دل تو بیٹھا سوچا کرتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
برے بھلے میں فرق ہے یہ جانتے ہیں سب مگر
ہے کون نیک کون بد نظر نظر کی بات ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رت بدلی تو زمیں کے چہرے کا غازہ بھی بدلا
رنگ مگر خود آسمان نے بدلے کیسے کیسے
رستے ہی میں ہو جاتی ہیں باتیں بس دو چار
اب تو ان کے گھر بھی جانا کم کم ہوتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مبہم تھے سب نقوش نقابوں کی دھند میں
چہرہ اک اور بھی پس چہرہ ضرور تھا
-
موضوع : نقاب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پہنچ کے جو سر منزل بچھڑ گیا مجھ سے
وہ ہم سفر تھا مگر ہم نظر نہ تھا میرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر دکاں اپنی جگہ حیرت نظارہ ہے
فکر انساں کے سجائے ہوئے بازار تو دیکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ جانے کتنی بستیاں اجڑ کے رہ گئیں
ملے ہیں راستے میں کچھ مکاں جلے جلے
مری شکست بھی تھی میری ذات سے منسوب
کہ میری فکر کا ہر فیصلہ شعوری تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مشکل ہی سے کر لیتی ہے دنیا اسے قبول
ایسی حقیقت جس میں فسانہ کم کم ہوتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ پاس ہو کے دور ہے تو دور ہو کے پاس
فراق اور وصال ہیں عجیب عجیب سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہی سوچ کر اکتفا چار پر کر گئے شیخ جی
ملیں گی وہاں ان کو حور اور پریاں وغیرہ وغیرہ
بے سال و سن زمانوں میں پھیلے ہوئے ہیں ہم
بے رنگ و نسل نام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ