Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

احمد عطا کے اشعار

2.8K
Favorite

باعتبار

کوئی ایسا تو ترے بعد نہیں رہنا تھا

حالت ہجر کو افتاد نہیں رہنا تھا

پھر کوئی دور ہوا جاتا ہے

پھر کوئی دل کے قریب آئے گا

کسی کو خواب میں اکثر پکارتے ہیں ہم

عطاؔ اسی لیے سوتے میں ہونٹ ہلتے ہیں

باغ ہوس میں کچھ نہیں دل ہے تو خوش نما ہے دل

آگ لگائے گی طلب ہوگا یہ خس تباہ کن

کوئی گماں ہوں کوئی یقیں ہوں کہ میں نہیں ہوں

میں ڈھونڈھتا ہوں کہ میں کہیں ہوں کہ میں نہیں ہوں

ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں

اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر

کیا ہوئے لوگ پرانے جنہیں دیکھا بھی نہیں

اے زمانے ہمیں تاخیر ہوئی آنے میں

یہ چادر ایک علامت بنی ہوئی تھی یہاں

دراصل غم کا لبادہ بہت ضروری تھا

تعبیر بتائی جا چکی ہے

اب آنکھ کو خواب دیکھنا ہے

ہم آج ہنستے ہوئے کچھ الگ دکھائی دیے

بہ وقت گریہ ہم ایسے تھے، سارے جیسے ہیں

زندگی خواب ہے اور خواب بھی ایسا کہ میاں

سوچتے رہیے کہ اس خواب کی تعبیر ہے کیا

ہنستے ہنستے ہو گیا برباد میں

خوش دلی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا

نارسائی نے عجب طور سکھائے ہیں عطاؔ

یعنی بھولے بھی نہیں تم کو پکارا بھی نہیں

اب یہاں کون نکالے گا بھلا دودھ کی نہر

عشق کرتا ہے تو جیسا بھی ہے اچھا ہے میاں

یہ ترا ہجر عطا درد عطا کرب عطا

اب عطاؔ کیسے جیے تیری عطاؤں کے بغیر

اس کا بدن ہے راگ سا راگ بھی ایک آگ سا

آگ کا مس تباہ کن راگ کا رس تباہ کن

یہ جو راتوں کو مجھے خواب نہیں آتے عطاؔ

اس کا مطلب ہے مرا یار خفا ہے مجھ سے

ویسا ہی خراب شخص ہوں میں

جیسا کوئی چھوڑ کر گیا تھا

میں تو مٹی ہو رہا تھا عشق میں لیکن عطاؔ

آ گئی مجھ میں کہیں سے بے دماغی میرؔ کی

آج دیکھا ہے اسے ایسی محبت سے عطاؔ

وہ یہی بھول گیا اس کو کہیں جانا تھا

کسی بزرگ کے بوسے کی اک نشانی ہے

ہمارے ماتھے پہ تھوڑی سی روشنی ہے نا

یہ عشق پیشگی دار و رسن کے ہنگامے

یہ رنگ زندہ سلامت ہے یعنی ہم ابھی ہیں

میں تیری روح میں اترا ہوا ملوں گا تجھے

اور اس طرح کہ تجھے کچھ خبر نہیں ہونی

ہماری عمر سے بڑھ کر یہ بوجھ ڈالا گیا

سو ہم بڑوں سے بزرگوں کی طرح ملتے ہیں

ہم آستان خدائے سخن پہ بیٹھے تھے

سو کچھ سلیقے سے اب زندگی تباہ کریں

ہم بہکتے ہوئے آتے ہیں ترے دروازے

تیرے دروازے بہکتے ہوئے آتے ہیں ہم

میں اس کی آنکھوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتا

افق سے تا بہ افق اک جہاں سمجھ لیجے

لوگ ہنستے ہیں ہمیں دیکھ کے تنہا تنہا

آؤ بیٹھیں کہیں اور ان پہ ہنسیں ہم اور تم

سڑک پہ بیٹھ گئے دیکھتے ہوئے دنیا

اور ایسے ترک ہوئی ایک خودکشی ہم سے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے