Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aanis Moin's Photo'

آنس معین

1960 - 1986 | ملتان, پاکستان

پاکستان کے ممتاز شاعر جنہوں نے محض ستائیس سال کی عمر میں خودکشی کر لی

پاکستان کے ممتاز شاعر جنہوں نے محض ستائیس سال کی عمر میں خودکشی کر لی

آنس معین کے اشعار

18.3K
Favorite

باعتبار

گئے زمانے کی چاپ جن کو سمجھ رہے ہو

وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں

اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں

مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں

اندر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنسؔ

باہر کھلنے والی کھڑکی بند پڑی ہے

اتارا دل کے ورق پر تو کتنا پچھتایا

وہ انتساب جو پہلے بس اک کتاب پہ تھا

تمہارے نام کے نیچے کھنچی ہوئی ہے لکیر

کتاب زیست ہے سادہ اس اندراج کے بعد

گونجتا ہے بدن میں سناٹا

کوئی خالی مکان ہو جیسے

درکار تحفظ ہے پہ سانس بھی لینا ہے

دیوار بناؤ تو دیوار میں در رکھنا

یاد ہے آنسؔ پہلے تم خود بکھرے تھے

آئینے نے تم سے بکھرنا سیکھا تھا

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے

خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار

اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور

عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے

مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے

نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں

ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں

تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی

نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا

نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی

بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو

لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا

یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا

نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا

ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا

دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

بکھر کے پھول فضاؤں میں باس چھوڑ گیا

تمام رنگ یہیں آس پاس چھوڑ گیا

کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا

یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا

پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے

میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا

پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا

یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا

دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی

آج ذرا سی دیر کو اپنے اندر جھانک کر دیکھا تھا

آج مرا اور اک وحشی کا ساتھ رہا پل دو پل کا

میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں

میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے

گیا تھا مانگنے خوشبو میں پھول سے لیکن

پھٹے لباس میں وہ بھی گدا لگا مجھ کو

ہزاروں قمقموں سے جگمگاتا ہے یہ گھر لیکن

جو من میں جھانک کے دیکھوں تو اب بھی روشنی کم ہے

گہری سوچیں لمبے دن اور چھوٹی راتیں

وقت سے پہلے دھوپ سروں پہ آ پہنچی

ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج

اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے

اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں

کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری

میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں

آخر کو روح توڑ ہی دے گی حصار جسم

کب تک اسیر خوشبو رہے گی گلاب میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے