وزیر علی صبا لکھنؤی کے اشعار
دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا
باقی رہے نہ فرق زمین آسمان میں
اپنا قدم اٹھا لیں اگر درمیاں سے ہم
بات بھی آپ کے آگے نہ زباں سے نکلی
لیجئے آئے تھے ہم سوچ کے کیا کیا دل میں
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
کہتے ہیں میرے دوست مرا حال دیکھ کر
دشمن کو بھی خدا نہ کرے مبتلائے عشق
نہ کریں آپ وفا ہم کو کیا
بے وفا آپ ہی کہلائیے گا
-
موضوع : وفا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آدم سے باغ خلد چھٹا ہم سے کوئے یار
وہ ابتدائے رنج ہے یہ انتہائے رنج
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قید مذہب واقعی اک روگ ہے
آدمی کو چاہئے آزاد ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اتنی تو دید عشق کی تاثیر دیکھیے
جس سمت دیکھیے تری تصویر دیکھیے
کلیجہ کانپتا ہے دیکھ کر اس سرد مہری کو
تمہارے گھر میں کیا آئے کہ ہم کشمیر میں آئے
میرے بغل میں رہ کے مجھی کو کیا ذلیل
نفرت سی ہو گئی دل خانہ خراب سے
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو
تری تلاش میں مہ کی طرح میں پھرتا ہوں
کہاں تو رات کو اے آفتاب رہتا ہے
کعبہ بنائیے کہ کلیسا بنائیے
دل سا مکاں حوالے کیا ہے جناب کے
ہیں وہ صوفی جو کبھی نالۂ ناقوس سنا
وجد کرنے لگے ہم دل کا عجب حال ہوا
ہوا دھوپ میں بھی نہ کم حسن یار
کنھیا بنا وہ جو سنولا گیا
روز و شب فرقت جاناں میں بسر کی ہم نے
تجھ سے کچھ کام نہ اے گردش دوراں نکلا
ساکن دیر ہوں اک بت کا ہوں بندہ بخدا
خود وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں مسلماں مجھ کو
نہ پڑھا یار نے احوال شکستہ میرا
خط کے پرزے کئے بازوئے کبوتر توڑا
کعبے کی سمت سجدہ کیا دل کو چھوڑ کر
تو کس طرف تھا دھیان ہمارا کدھر گیا
الفت کوچہ جاناں نے کیا خانہ خراب
برہمن دیر سے کعبے سے مسلماں نکلا
عاشق ہیں ہم کو حرف محبت سے کام ہے
ملا نکالتا پھرے مطلب کتاب سے
مے پی کے عید کیجیے گزرا مہ صیام
تسبیح رکھیے ساغر و مینا اٹھائیے
ہم رند پریشاں ہیں ماہ رمضاں ہے
چمکی ہوئی ان روزوں میں واعظ کی دکاں ہے
تمہاری زلف نہ گرداب ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمۂ حیواں سے فیض یاب گھٹا
آپ کو غیر بہت دیکھتے ہیں
ایک دن دیکھیے پچھتائیے گا
پایا ہے اس قدر سخن سخت نے رواج
پنجابی بات کرتے ہیں پشتو زبان میں
مجنوں نہیں کہ ایک ہی لیلیٰ کے ہو رہیں
رہتا ہے اپنے ساتھ نیا اک نگار روز
خاک میں مجھ کو ملا کے وہ صنم کہتا ہے
اپنے اللہ سے جا کر مری فریاد کرو
دونوں چشموں سے مری اشک بہا کرتے ہیں
موجزن رہتا ہے دریا کے کنارے دریا
-
موضوع : گریہ و زاری
خود رفتگی ہے چشم حقیقت جو وا ہوئی
دروازہ کھل گیا تو میں گھر سے نکل گیا
جب میں روتا ہوں تو اللہ رے ہنسنا ان کا
قہقہوں میں مرے نالوں کو اڑا دیتے ہیں
تو اپنے پاؤں کی مہندی چھڑا کے دے اے مہر
فلک کو چاہئے غازہ رخ قمر کے لئے
ہم بھی ضرور کہتے کسی کام کے لئے
فرصت نہ آسماں کو ملی اپنے کام سے
کیا بنایا ہے بتوں نے مجھ کو
نام رکھا ہے مسلماں میرا
دیکھیے آج وہ تشریف کہاں فرمائیں
ہم سے وعدہ ہے جدا غیر سے اقرار جدا
چار عنصر کے سب تماشے ہیں
واہ یہ چار باغ کس کا ہے
دشت جنوں میں آ گئیں آنکھیں جو ان کی یاد
بھاگا میں خاک ڈال کے چشم غزال میں
فصل گل ہی زاہدوں کو غم ہی میکش شاد ہیں
مسجدیں سونی پڑی ہیں بھٹیاں آباد ہیں
کدورت نہیں اپنی طبع رواں میں
بہت صاف بہتا ہے دریا ہمارا
یاد مژگاں میں مری آنکھ لگی جاتی ہے
لوگ سچ کہتے ہیں سولی پہ بھی نیند آتی ہے
میرے اشعار سے مضمون رخ یار کھلا
بے احادیث نہیں مطلب قرآں نکلا
ساقیا اب کے بڑے زوروں پہ ہیں ہم مے پرست
چل کے واعظ کو سر منبر لتاڑا چاہئے
صاف قلقل سے صدا آتی ہے آمین آمین
اپنے ساقی کو جو ہم رند دعا دیتے ہیں
چشم وا رہ گئی دیکھا جو طلسمات جہاں
آئنہ بن گئے ہم محو تماشا ہو کر
اٹھا دی قید مذہب دل سے ہم نے
قفس سے طائر ادراک نکلا
معدوم ہوئے جاتے ہیں ہم فکر کے مارے
مضموں کمر یار کا پیدا نہیں ہوتا
طائر عقل کو معذور کہا زاہد نے
پر پرواز میں تسبیح کا ڈورا باندھا
جب اس بے مہر کو اے جذب دل کچھ جوش آتا ہے
مہ نو کی طرح کھولے ہوئے آغوش آتا ہے
نہیں ہے حاجیوں کو مے کشی کی کیفیت
گئے حرم کو تو ہوگی بہت خراب گھٹا