Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Iqbal Azeem's Photo'

اقبال عظیم

1913 - 2000 | کراچی, پاکستان

اقبال عظیم کے اشعار

12.4K
Favorite

باعتبار

پرسش حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو

پرسش حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں

گفتگو نذر احتیاط ہوئی

قبل اس کے کہ ابتدا کرتے

ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے

درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں

جھک کر سلام کرنے میں کیا حرج ہے مگر

سر اتنا مت جھکاؤ کہ دستار گر پڑے

قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں

اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

مرے جرم وفا کا فیصلہ کچھ اس طرح ہوگا

سزا کا حکم فوری اور سماعت سرسری ہوگی

زباں خاموش ماتھے پر شکن آنکھوں میں افسانے

کوئی سمجھائے کیا کہتے ہیں اس طرز تکلم کو

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو

سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے

جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو

تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے

جنوں کو ہوش کہاں اہتمام غارت کا

فساد جو بھی جہاں میں ہوا خرد سے ہوا

بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں

اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں

آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب

خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے

بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی

اور ہم کو صبر و ضبط کی تاکید کی گئی

حق تنقید تمہیں ہے مگر اس شرط کے ساتھ

جائزہ لیتے رہو اپنے گریبانوں کا

منزل تو خوش نصیبوں میں تقسیم ہو چکی

کچھ خوش خیال لوگ ابھی تک سفر میں ہیں

اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے

سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے

یوں سر راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر

اس نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں

زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو

ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں

جب گھر کی آگ بجھی تو کچھ سامان بچا تھا جلنے سے

سو وہ بھی ان کے ہاتھ لگا جو آگ بجھانے آئے تھے

ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے

اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے

کوئی روزن ہی زنداں میں نہیں ہے

چلو فرصت ملی فکر سحر سے

کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں

جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں

کنارے بھی ممد ہوتے ہیں تشکیل تلاطم میں

وہ خوابیدہ نظر آتے ہیں خوابیدہ نہیں ہوتے

اس جشن چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے

ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے

اب ہم بھی سوچتے ہیں کہ بازار گرم ہے

اپنا ضمیر بیچ کے دنیا خرید لیں

روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں

میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں

سفر پہ نکلے ہیں ہم پورے اہتمام کے ساتھ

ہم اپنے گھر سے کفن ساتھ لے کے آئے ہیں

عذاب موج و تلاطم مجھے قبول مگر

خدا بچائے عذاب فریب ساحل سے

بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا

میرے پندار کو اب شوق تماشا بھی نہیں

ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے

درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے