Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Manzar Lakhnavi's Photo'

منظر لکھنوی

- 1965

منظر لکھنوی کے اشعار

6.3K
Favorite

باعتبار

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے

غم میں کچھ غم کا مشغلا کیجے

درد کی درد سے دوا کیجے

تفریق حسن و عشق کے انداز میں نہ ہو

لفظوں میں فرق ہو مگر آواز میں نہ ہو

جانے والے جا خدا حافظ مگر یہ سوچ لے

کچھ سے کچھ ہو جائے گی دیوانگی تیرے بغیر

غصہ قاتل کا نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے

ایک سر ہے کہ وہ ہر روز قلم ہوتا ہے

بہکی بہکی نگۂ ناز خدا خیر کرے

حسن میں عشق کے انداز خدا خیر کرے

مدتوں بعد کبھی اے نظر آنے والے

عید کا چاند نہ دیکھا تری صورت دیکھی

مانگنے پر کیا نہ دے گا طاقت صبر و سکون

جس نے بے مانگے عطا کر دی پریشانی مجھے

ظلم پر ظلم آ گئے غالب

آبلے آبلوں کو چھوڑ گئے

گھر کو چھوڑا ہے خدا جانے کہاں جانے کو

اب سمجھ لیجئے ٹوٹا ہوا تارا مجھ کو

کبھی تو اپنا سمجھ کر جواب دے ڈالو

بدل بدل کے صدائیں پکارتا ہوں میں

پھر منہ سے ارے کہہ کر پیمانہ گرا دیجے

پھر توڑیئے دل میرا پھر لیجئے انگڑائی

چنے تھے پھول مقدر سے بن گئے کانٹے

بہار ہائے ہمارے لئے بہار نہیں

وہ تو کہئے آپ کی الفت میں دل بہلا رہا

ورنہ دنیا چار دن بھی رہنے کے قابل نہ تھی

ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے

عید کا چاند چراغ شب تنہائی ہے

محبت تو ہم نے بھی کی اور بہت کی

مگر حسن کو عشق کرنا نہ آیا

ہنسی آنے کی بات ہے ہنس رہا ہوں

مجھے لوگ دیوانہ فرما رہے ہیں

کھیلنا آگ کے شعلوں سے کچھ آسان نہیں

بس یہ اک بات خدا داد ہے پروانے میں

دنیا کو دین دین کو دنیا کریں گے ہم

تیرے بنیں گے ہم تجھے اپنا کریں گے ہم

آپ کی یاد میں روؤں بھی نہ میں راتوں کو

ہوں تو مجبور مگر اتنا بھی مجبور نہیں

یہ انسان نادیدہ الفت کا مارا

خدا جانے کس کس کو سجدہ کرے گا

مجھے مٹا کے وہ یوں بیٹھے مسکراتے ہیں

کسی سے جیسے کوئی نیک کام ہو جائے

عہد شباب رفتہ کیا عہد پر فضا تھا

جینے کا بھی مزا تھا مرنے کا بھی مزا تھا

مرگ عاشق پہ فرشتہ موت کا بدنام تھا

وہ ہنسی روکے ہوئے بیٹھا تھا جس کا کام تھا

دو گھڑی دل کے بہلانے کا سہارا بھی گیا

لیجئے آج تصور میں بھی تنہائی ہے

جگمگاتی تری آنکھوں کی قسم فرقت میں

بڑے دکھ دیتی ہے یہ تاروں بھری رات مجھے

اہل محشر دیکھ لوں قاتل کو تو پہچان لوں

بھولی بھالی شکل تھی اور کچھ بھلا سا نام تھا

ہیں سو طریقے اور بھی اے بے قرار دل

اظہار شکوہ شکوے کے انداز میں نہ ہو

ہم وحشیوں کا مسکن کیا پوچھتا ہے ظالم

صحرا ہے تو صحرا ہے زنداں ہے تو زنداں ہے

مجھے تو بخشئے اور جینے دیجے

مبارک آپ ہی کو آپ کا دل

مری رات کیوں کر کٹے گی الٰہی

مجھے دن کو تارے نظر آ رہے ہیں

جمع ہم کرتے گئے چن چن کے تنکے باغ میں

اور نہ جانے کس کا کس کا آشیاں بنتا گیا

مٹانے والے ہمارا ہی گھر مٹانا تھا

چمن میں ایک سے ایک اچھا آشیانا تھا

اب اتنا عقل سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں

گلوں کے شکوے ستاروں سے کہہ رہا ہوں میں

شب ہجر یوں دل کو بہلا رہے ہیں

کہ دن بھر کی بیتی کو دہرا رہے ہیں

ہوئی دیوانگی اس درجہ مشہور جہاں میری

جہاں دو آدمی بھی ہیں چھڑی ہے داستاں میری

اپنی بیتی نہ کہوں تیری کہانی نہ کہوں

پھر مزہ کاہے سے پیدا کروں افسانے میں

برا ہو عشق کا سب کچھ سمجھ رہا ہوں میں

بنا رہا ہے کوئی بن رہا ہوں دیوانہ

ان سے جب پوچھا گیا بسمل تمہارے کیا کریں

ہنس کے بولے زخم دل دیکھا کریں رویا کریں

کسی آنکھ میں نیند آئے تو جانوں

مرا قصۂ غم کہانی نہیں ہے

ایک موسیٰ تھے کہ ان کا ذکر ہر محفل میں ہے

اور اک میں ہوں کہ اب تک میرے دل کی دل میں ہے

کم سنی کیا کم تھی اس پر قہر ہے شکی مزاج

اپنا ناوک میرے دل سے کھینچ کر دیکھا کئے

کیجیے کیوں مردہ ارمانوں سے چھیڑ

سونے والوں کو تو سونے دیجیے

نہ دل میں لہو ہے نہ آنکھوں میں آنسو

غموں کی نچوڑی ہوئی آستیں ہوں

واعظ سے نہ پوچھوں گا کبھی مسئلۂ عشق

میں خوب سمجھتا ہوں جو ارشاد کریں گے

بے خود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے

صبح سے شمع جلا دی ترے سودائی نے

پوچھنے والے بھری بزم میں قاتل کو نہ پوچھ

نام تیرا ہی اگر لے لیا سودائی نے

کچھ ابر کو بھی ضد ہے منظرؔ مری توبہ سے

جب عہد کیا میں نے گھنگھور گھٹا چھائی

گلوں سے کھیل رہے ہیں نسیم کے جھونکے

قفس میں بیٹھا ہوا ہاتھ مل رہا ہوں میں

دامن و جیب و گریباں کا نہیں کوئی ملال

غم یہ ہے دست جنوں کل کے لئے کام نہیں

Recitation

بولیے