Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

عزیز حیدرآبادی

1873/74 - 1949

عزیز حیدرآبادی کے اشعار

2.3K
Favorite

باعتبار

دیکھتا ہوں ان کی صورت دیکھ کر

دھوپ میں تارے نظر آتے ہیں مجھے

اس نے سن کر بات میری ٹال دی

الجھنوں میں اور الجھن ڈال دی

بہت کچھ دیکھنا ہے آگے آگے

ابھی دل نے مرے دیکھا ہی کیا ہے

نالے ہیں نہ آہیں ہیں نہ رونا نہ تڑپنا

بے خود ہوں تری یاد میں فرصت کے دن آئے

مشکل ہے امتیاز عذاب و ثواب میں

پیتا ہوں میں شراب ملا کر گلاب میں

وہ سنیں یا نہ سنیں نالہ و فریاد عزیزؔ

آپ ہرگز نہ کریں ترک تقاضا اپنا

درد سہنے کے لئے صدمے اٹھانے کے لئے

ان سے دل اپنا مجھے واپس طلب کرنا پڑا

شیشے کھلے نہیں ابھی ساغر چلے نہیں

اڑنے لگی پری کی طرح بو شراب کی

زور قسمت پہ چل نہیں سکتا

خامشی اختیار کرتا ہوں

دنیا کی روش دیکھی تری زلف دوتا میں

بنتی ہے یہ مشکل سے بگڑتی ہے ذرا میں

وہ یہ کہہ کر داغ دیتے ہیں مجھے

پھول سے پہلے ثمر آتے نہیں

گن رہا ہوں حرف ان کے عہد کے

مجھ کو دھوکا دے رہی ہے یاد کیا

ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے ابھی کچھ

تری کافر نظر کیا جانے کیا ہے

عیاں یا نہاں اک نظر دیکھ لیتے

کسی صورت ان کو مگر دیکھ لیتے

وہ ابر گھرا جھوم کے رحمت کے دن آئے

پینے کے پلانے کے مسرت کے دن آئے

نسریں میں یہ مہک ہے نہ یہ نسترن میں ہے

بوئے گل مراد ترے پیرہن میں ہے

کوئی رسوا کوئی سودائی ہے

اک جہاں آپ کا شیدائی ہے

آنکھوں میں تری شکل ہے دل میں ہے تری یاد

آئے بھی تو کس شان سے فرقت کے دن آئے

دھڑکتے ہوئے دل کے ہمراہ میرے

مری نبض بھی چارہ گر دیکھ لیتے

حسن ہے داد خدا عشق ہے امداد خدا

غیر کا دخل نہیں بخت ہے اپنا اپنا

آرام اپنے بس کا ہے بس میں نہیں ہے کیا

گلشن میں کیا دھرا ہے قفس میں نہیں ہے کیا

دل ٹھکانے ہو تو سب کچھ ہے عزیز

جی بہل جاتا ہے صحرا کیوں نہ ہو

ہم کو سنبھالتا کوئی کیا راہ عشق میں

کھا کھا کے ٹھوکریں ہمیں آخر سنبھل گئے

دم تکلم کسی کے آگے ہم اپنے دل کو بھی دیتے ہوکے

ملاتے چن چن کے لفظ ایسے سوال گویا جواب ہوتا

صحبت غیر سے بچئے بچئے

دیکھیے دیکھیے رسوائی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے