Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zia Jalandhari's Photo'

ضیا جالندھری

1923 - 2012 | اسلام آباد, پاکستان

ممتاز ترین پاکستانی جدید شاعروں میں نمایاں

ممتاز ترین پاکستانی جدید شاعروں میں نمایاں

ضیا جالندھری کے اشعار

4.3K
Favorite

باعتبار

انہیں اپنے گداز دل سے اندازہ تھا اوروں کا

جب انسانوں کے دل دیکھے تو انسانوں کے دل ٹوٹے

تو کوئی سوکھا ہوا پتہ نہیں ہے کہ جسے

جس طرف موج ہوا چاہے اڑا کر لے جائے

ضیاؔ وہ زندگی کیا زندگی ہے

جسے خود موت بھی ٹھکرا گئی ہو

وقت بے مہر ہے اس فرصت کمیاب میں تم

میری آنکھوں میں رہو خواب مجسم کی طرح

اتنا سوچا تجھے کہ دنیا کو

ہم نے تیری نگاہ سے دیکھا

وہ شاخ بنے سنورے وہ شاخ پھلے پھولے

جس شاخ پہ دھوپ آئے جس شاخ کو نم پہنچے

اب اس کا چارہ ہی کیا کہ اپنی طلب ہی لا انتہا تھی ورنہ

وہ آنکھ جب بھی اٹھی ہے دامان درد پھولوں سے بھر گئی ہے

برا نہ مان ضیاؔ اس کی صاف گوئی کا

جو درد مند بھی ہے اور بے ادب بھی نہیں

مشکلیں دل میں نئی شمعیں جلا دیتی ہیں

غم سے بجھ جانا تو درویشوں کا دستور نہیں

ہمت ہے تو بلند کر آواز کا علم

چپ بیٹھنے سے حل نہیں ہونے کا مسئلہ

میں آفتاب کو کیسے دکھاؤں تاریکی

تجھے میں کیسے بتاؤں کہ کیا ہے تنہائی

وہ خواب کیا تھا کہ جس کی حیات ہے تعبیر

وہ جرم کیا تھا کہ جس کی سزا ہے تنہائی

دیکھ پھولوں سے لدے دھوپ نہائے ہوئے پیڑ

ہنس کے کہتے ہیں گزاری ہے خزاں بھی ہم نے

ہاں مجھ پہ ستم بھی ہیں بہت وقت کے لیکن

کچھ وقت کی ہیں مجھ پہ عنایات وہ تم ہو

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے

کیسے دکھ کتنی چاہ سے دیکھا

تجھے کس کس نگاہ سے دیکھا

تیرا غم بھی نہ ہو تو کیا جینا

کچھ تسلی ہے درد ہی سے مجھے

ان کہی بات کے سو روپ کہی بات کا ایک

کبھی سن وہ بھی جو منت کش گویائی نہیں

عشق میں بھی کوئی انجام ہوا کرتا ہے

عشق میں یاد ہے آغاز ہی آغاز مجھے

اظہار نارسا سہی وہ صورت جمال

آئینۂ خیال میں بھی ہو بہو نہ تھی

تیرے دکھ کو پا کر ہم تو اپنا دکھ بھی بھول گئے

کس کو خبر تھی تیری خموشی تہہ در تہہ اک طوفاں ہے

یہ آنسو یہ پشیمانی کا اظہار

مجھے اک بار پھر بہکا گئی ہو

اب جو روٹھے تو جاں پہ بنتی ہے

خوش ہوا مجھ سے بے سبب کوئی

اب یہ آنکھیں کسی تسکین سے تابندہ نہیں

میں نے رفتہ سے یہ جانا ہے کہ آئندہ نہیں

ابر آوارہ سے مجھ کو ہے وفا کی امید

برق بے تاب سے شکوہ ہے کہ پائندہ نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے