Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Vikas Sharma Raaz's Photo'

وکاس شرما راز

1973 | ہریانہ, انڈیا

ہندوستان کی نئی نسل کے ممتاز شاعر

ہندوستان کی نئی نسل کے ممتاز شاعر

وکاس شرما راز کے اشعار

8.6K
Favorite

باعتبار

مجھ کو اکثر اداس کرتی ہے

ایک تصویر مسکراتی ہوئی

ارادہ تو نہیں ہے خودکشی کا

مگر میں زندگی سے خوش نہیں ہوں

ایک برس اور بیت گیا

کب تک خاک اڑانی ہے

مدتیں ہو گئیں حساب کئے

کیا پتا کتنے رہ گئے ہیں ہم

کون تحلیل ہوا ہے مجھ میں

منتشر کیوں ہیں عناصر میرے

میری کوشش تو یہی ہے کہ یہ معصوم رہے

اور دل ہے کہ سمجھ دار ہوا جاتا ہے

ایسی پیاس اور ایسا صبر

دریا پانی پانی ہے

رفتہ رفتہ قبول ہوں گے اسے

روشنی کے لیے نئے ہیں ہم

یہ صدا کاش اسی نے دی ہو

اس طرح وہ ہی بلاتا ہے مجھے

تو بھی ناراض بہت ہے مجھ سے

زندگی تجھ سے خفا ہوں میں بھی

محبت کے آداب سیکھو ذرا

اسے جان کہہ کر پکارا کرو

فقط زنجیر بدلی جا رہی تھی

میں سمجھا تھا رہائی ہو گئی ہے

یہاں تک کر لیا مصروف خود کو

اکیلی ہو گئی تنہائی میری

دیکھنا چاہتا ہوں گم ہو کر

کیا کوئی ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے

جن کا سوجھا نہ کچھ جواب ہمیں

ان سوالوں پہ ہنس دیئے ہم لوگ

عشق بینائی بڑھا دیتا ہے

جانے کیا کیا نظر آتا ہے مجھے

تنہا ہوتا ہوں تو مر جاتا ہوں میں

میرے اندر تو زندہ ہو جاتا ہے

مری عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں

مرے زوال کا قصہ بھی اس کتاب میں تھا

میں تو کسی جلوس میں گیا نہیں

مرا مکان کیوں جلا دیا گیا

اثر ہے یہ ہماری دستکوں کا

جہاں دیوار تھی در ہو گیا ہے

ہمارے درمیاں جو اٹھ رہی تھی

وہ اک دیوار پوری ہو گئی ہے

اسے چھوا ہی نہیں جو مری کتاب میں تھا

وہی پڑھایا گیا مجھ کو جو نصاب میں تھا

میری کوشش تو یہی ہے کہ یہ معصوم رہے

اور دل ہے کہ سمجھ دار ہوا جاتا ہے

گھر سے نکلا تھا خودکشی کرنے

ریل کے ڈبے گن رہا ہوں میں

جسے دیکھو غزل پہنے ہوئے ہے

بہت سستا یہ زیور گیا ہے

زندگی کی ہنسی اڑاتی ہوئی

خواہش مرگ سر اٹھاتی ہوئی

لفظ کی قید و رہائی کا ہنر

کام آ ہی گیا آخر میرے

دشت کی خاک بھی چھانی ہے

گھر سی کہاں ویرانی ہے

ایک کرن پھر مجھ کو واپس کھینچ گئی

میں بس جسم سے باہر آنے والا تھا

گھر میں وہی پیلی تنہائی رہتی ہے

دیواروں کے رنگ بدلتے رہتے ہیں

روز یہ خواب ڈراتا ہے مجھے

کوئی سایہ لیے جاتا ہے مجھے

میں عدم کی پناہ گاہ میں ہوں

چھو بھی سکتی نہیں حیات مجھے

زمین بیچ کے خوش ہو رہے ہو تم جس کو

وہ سارے گاؤں کو بازار کرنے والا ہے

ہوا کے وار پر اب وار کرنے والا ہے

چراغ بجھنے سے انکار کرنے والا ہے

بلا کا حبس تھا پر نیند ٹوٹتی ہی نہ تھی

نہ کوئی در نہ دریچہ فصیل خواب میں تھا

ذرا سا دھیان کیا بھٹکا ہمارا

ہمیں پر آ گرا ملبہ ہمارا

سبھی کو راستہ بتا دیا گیا

یوں منزلوں کا قد گھٹا دیا گیا

بچھڑنے کا ہمیں امکان تو تھا

مگر اب دن مقرر ہو گیا ہے

میں تو کسی جلوس میں گیا نہیں

مرا مکان کیوں جلا دیا گیا

پجاری ہیں ازل سے میرؔ جی کے

وہی ہم ہیں وہی قشقہ ہمارا

کوئی اس کے برابر ہو گیا ہے

یہ سنتے ہی وہ پتھر ہو گیا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے