Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sakhi Lakhnvi's Photo'

سخی لکھنوی

1813 - 1876

سخی لکھنوی کے اشعار

1.1K
Favorite

باعتبار

سخیؔ بیٹھیے ہٹ کے کچھ اس کے در سے

بڑی بھیڑ ہوگی کچل جائیے گا

نہ چھوڑا ہجر میں بھی خانۂ تن

رگڑوائے گی کب تک ایڑیاں روح

خال اور رخ سے کس کو دوں نسبت

ایسے تارے نہ ایسا پیارا چاند

حیف ثابت ہے جیب نے دامن

اور جنون میں بہار آئی ہے

تھا حنا سے جو شوخ میرا خوں

بولے یہ لال لال ہے کچھ اور

ہم ان سے آج کا شکوہ کریں گے

اکھاڑیں گے وہ برسوں کی گڑی بات

لی زباں اس کی جو منہ میں ہو گیا ذوق نبات

انگلیاں چوسیں تو ذوق نیشکر پیدا ہوا

قافلہ جاتا ہے ساغر کی طرف رندوں کا

ہے مگر قلقل مینا جرس جام شراب

کبھی پہنچے گا دل ان انگلیوں تک

نگینے کی طرح خاتم میں جڑ کے

برگ گل آ میں تیرے بوسے لوں

تجھ میں ہے ڈھنگ یار کے لب کا

تیس دن یار اب نہ آئے گا

اس مہینے کا نام خالی ہے

دل کلیجہ دماغ سینہ و چشم

ان کے رہنے کے ہیں مکان بہت

مرے لاشہ کو کاندھا دے کے بولے

چلو تربت میں اب تم کو سلائیں

ہچکیاں آتی ہیں پر لیتے نہیں وہ میرا نام

دیکھنا ان کی فراموشی کو میری یاد کو

درد کو گردہ تڑپنے کو جگر

ہجر میں سب ہیں مگر دل تو نہیں

کعبہ میں سخت کلامی سن لی

بت کدہ میں نہ کبھی آئیے گا

وہ عاشق ہیں کہ مرنے پر ہمارے

کریں گے یاد ہم کو عمر بھر آپ

رہتے کعبہ میں اکیلے کیا ہم

دل لگانے کو صنم بھی تو نہ تھے

خون عشاق ہے معانی میں

شوق سے پان کھائیے صاحب

چرخ پر بدر جس کو کہتے ہیں

یار کا ساغر سفالی ہے

یوں ہی وعدہ کرو یقیں ہو جائے

کیوں قسم لوں قسم کے کیا معنی

خدا کے پاس کیا جائیں گے زاہد

گنہگاروں سے جب یہ بار پائیں

نہ عاشق ہیں زمانے میں نہ معشوق

ادھر ہم رہ گئے ہیں اور ادھر آپ

سینے سے ہمارا دل نہ لے جاؤ

چھڑواتے ہو کیوں وطن کسی کا

ایک دو تین چار پانچ چھ سات

یوں ہی گن لیں گے کم کے کیا معنی

دیکھو قلعی کھلے گی صاف اس کی

آئینہ ان کے منہ چڑھا ہے آج

تھا مرا ناخن تراشیدہ

اوج گردوں پہ جو ہلال ہوا

رنگت اس رخ کی گل نے پائی ہے

اور پسینے کی بو گلاب میں ہے

پوجنا بت کا ہے یہ کیا مضمون

اور طواف حرم کے کیا معنی

اس طرف بزم میں ہم تھے وہ تھے

اس طرف شمع تھی پروانہ تھا

جائے گی گلشن تلک اس گل کی آمد کی خبر

آئے گی بلبل مرے گھر میں مبارک باد کو

شمع کو روشنی کا اپنے بہت دعویٰ ہے

ساق پا سے کچھ اٹھا لیجئے داماں اپنا

تصویر چشم یار کا خواہاں ہے باغباں

ایجاد ہوگی نرگس بیمار کی جگہ

کیوں حسینوں کی آنکھوں سے نہ لڑے

میری پتلی کی مردمی ہی تو ہے

میں تجھے پھر زمیں دکھاؤں گا

دیکھ مجھ سے نہ آسمان بگڑ

جیتیں گے نہ ہم سے بازیٔ عشق

اغیار کے پٹ پڑیں گے پانسے

کی خطابت کو گر خدا سمجھا

بندہ بھی آخر آدمی ہی تو ہے

بوسہ ہر وقت رخ کا لیتا ہے

کس قدر گیسوئے دوتا ہے شوخ

کہنا مجنوں سے کہ کل تیری طرف آؤں گا

ڈھونڈنے جاتا ہوں فرہاد کو کہسار میں آج

بہت خواب غفلت میں دن چڑھ گیا

اٹھو سونے والو پھر آئے گی رات

دیکھیں کہتا ہے خدا حشر کے دن

تم کو کیا غیر کو کیا ہم کو کیا

شیخ جی بت کی برائی کیجے

اپنے اللہ سے بھرپائیے گا

جس کے گھر جاتے نہ تھے حضرت دل

واں لگے پھاند نے دیوار یہ کیا

دفن ہم ہو چکے تو کہتے ہیں

اس گنہ گار کا خدا حافظ

تم نہ آسان کو آساں سمجھو

ورنہ مشکل مری مشکل تو نہیں

نزع کے دم بھی انہیں ہچکی نہ آئے گی کبھی

یوں ہی گر بھولے رہیں گے وہ سخیؔ کی یاد کو

زندگی تک مری ہنس لیجئے آپ

پھر مجھے روئیے گا میرے بعد

آنکھوں سے پائے یار لگانے کی ہے ہوس

حلقہ ہمارے چشم کا اس کی رکاب ہو

رخ ہاتھ پہ رکھا نہ کرو وقت تکلم

ہر بات میں قرآن اٹھایا نہیں جاتا

بات کرنے میں ہونٹ لڑتے ہیں

ایسے تکرار کا خدا حافظ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے