Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qabil Ajmeri's Photo'

قابل اجمیری

1931 - 1962 | حیدرآباد, پاکستان

قابل اجمیری کے اشعار

7.6K
Favorite

باعتبار

رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب

چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے

فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں

اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں

کچھ دیر کسی زلف کے سائے میں ٹھہر جائیں

قابلؔ غم دوراں کی ابھی دھوپ کڑی ہے

زمانہ دوست ہے کس کس کو یاد رکھوگے

خدا کرے کہ تمہیں مجھ سے دشمنی ہو جائے

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے

عشق انسان کی ضرورت ہے

ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا

آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

ہم نے اس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھا

حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں

کتنے شوریدہ سر محبت میں

ہو گئے کوچۂ صنم کی خاک

بہت کام لینے ہیں درد جگر سے

کہیں زندگی کو قرار آ نہ جائے

تضاد جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے

میں رو رہا ہوں تم ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

غم جہاں کے تقاضے شدید ہیں ورنہ

جنون کوچۂ دلدار ہم بھی رکھتے ہیں

تم کو بھی شاید ہماری جستجو کرنی پڑے

ہم تمہاری جستجو میں اب یہاں تک آ گئے

حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے

ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی

قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

خود تمہیں چاک گریباں کا شعور آ جائے گا

تم وہاں تک آ تو جاؤ ہم جہاں تک آ گئے

کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی

یوں بھی ہوا ہے جشن چراغاں کبھی کبھی

یہ گردش زمانہ ہمیں کیا مٹائے گی

ہم ہیں طواف کوچۂ جاناں کیے ہوئے

یہ سب رنگینیاں خون تمنا سے عبارت ہیں

شکست دل نہ ہوتی تو شکست زندگی ہوتی

مجھے تو اس درجہ وقت رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو

مگر کچھ اپنے لیے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاق جنوں پہ لیکن

تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے

کون یاد آ گیا اذاں کے وقت

بجھتا جاتا ہے دل چراغ جلے

کوئی دیوانہ چاہے بھی تو لغزش کر نہیں سکتا

ترے کوچے میں پاؤں لڑکھڑانا بھول جاتے ہیں

آج جنوں کے ڈھنگ نئے ہیں

تیری گلی بھی چھوٹ نہ جائے

آج قابلؔ مے کدے میں انقلاب آنے کو ہے

اہل دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے

کوچۂ یار مرکز انوار

اپنے دامن میں دشت غم کی خاک

وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد

سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد

دن چھپا اور غم کے سائے ڈھلے

آرزو کے نئے چراغ جلے

میں اپنے غم خانۂ جنوں میں

تمہیں بلانا بھی جانتا ہوں

تمہاری گلیوں میں پھر رہا ہوں

خیال رسم وفا ہے ورنہ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے