نظم طبا طبائی کے اشعار
درد دل سے عشق کے بے پردگی ہوتی نہیں
اک چمک اٹھتی ہے لیکن روشنی ہوتی نہیں
اسیری میں بہار آئی ہے فریاد و فغاں کر لیں
نفس کو خوں فشاں کر لیں قفس کو بوستاں کر لیں
اپنی دنیا تو بنا لی تھی ریاکاروں نے
مل گیا خلد بھی اللہ کو پھسلانے سے
بنایا توڑ کے آئینہ آئینہ خانہ
نہ دیکھی راہ جو خلوت سے انجمن کی طرف
-
موضوع : آئینہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مری باتوں میں کیا معلوم کب سوئے وہ کب جاگے
سرے سے اس لیے کہنی پڑی پھر داستاں مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نظر کہیں نہیں اب آتے حضرت ناصح
سنا ہے گھر میں کسی مہ لقا کے بیٹھ گئے
روز سیہ میں ساتھ کوئی دے تو جانئے
جب تک فروغ شمع ہے پروانہ ساتھ ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جو اہل دل ہیں الگ ہیں وہ اہل ظاہر سے
نہ میں ہوں شیخ کی جانب نہ برہمن کی طرف
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لوٹتے رہتے ہیں مجھ پر چاہنے والوں کے دل
ورنہ یوں پوشاک تیری ملگجی ہوتی نہیں
کعبہ و بت خانہ عارف کی نظر سے دیکھیے
خواب دونوں ایک ہی ہیں فرق ہے تعبیر میں
کیا ہے اس نے ہر اک سے وصال کا وعدہ
اس اشتیاق میں مرنا ضروری ہوتا ہے
بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی
سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف
-
موضوع : امید
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سحر کو اٹھتے ہیں وہ دیکھ کر کف رنگیں
اب آئنے پہ بھی سکے حنا کے بیٹھ گئے
اڑائی خاک جس صحرا میں تیرے واسطے میں نے
تھکا ماندہ ملا ان منزلوں میں آسماں مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یوں میں سیدھا گیا وحشت میں بیاباں کی طرف
ہاتھ جس طرح سے آتا ہے گریباں کی طرف
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اڑ کے جاتی ہے مری خاک ادھر گاہ ادھر
کچھ پتا دے نہ گئی عمر گریزاں اپنا
نشے میں سوجھتی ہے مجھے دور دور کی
ندی وہ سامنے ہے شراب طہور کی
تو نے تو اپنے در سے مجھ کو اٹھا دیا ہے
پرچھائیں پھر رہی ہے میری اسی گلی میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ دل کی بے قراری خاک ہو کر بھی نہ جائے گی
سناتی ہے لب ساحل سے یہ ریگ رواں مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل اس طرح ہوائے محبت میں جل گیا
بھڑکی کہیں نہ آگ نہ اٹھا دھواں کہیں