میر انیس کے اشعار
عاشق کو دیکھتے ہیں دوپٹے کو تان کر
دیتے ہیں ہم کو شربت دیدار چھان کر
اشک غم دیدۂ پر نم سے سنبھالے نہ گئے
یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے
تمام عمر جو کی ہم سے بے رخی سب نے
کفن میں ہم بھی عزیزوں سے منہ چھپا کے چلے
انیسؔ آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں
تمام عمر اسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
سوائے خاک کے باقی اثر نشاں سے نہ تھے
زمیں سے دب گئے دبتے جو آسماں سے نہ تھے
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کریم جو تجھے دینا ہے بے طلب دے دے
فقیر ہوں پہ نہیں عادت سوال مجھے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانا زمین پر
خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیسؔ
کربلا کے واسطے میں کربلا میرے لیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گل دستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
تو سراپا اجر اے زاہد میں سر تا پا گناہ
باغ جنت تیری خاطر کربلا میرے لیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مثال ماہیٔ بے آب موج تڑپا کی
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے