Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khaleel Mamoon's Photo'

خلیل مامون

1948 | بنگلور, انڈیا

ممتاز شاعر۔ ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

ممتاز شاعر۔ ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

خلیل مامون کے اشعار

2.2K
Favorite

باعتبار

لفظوں کا خزانہ بھی کبھی کام نہ آئے

بیٹھے رہیں لکھنے کو ترا نام نہ آئے

ایسا ہو زندگی میں کوئی خواب ہی نہ ہو

اندھیاری رات میں کوئی مہتاب ہی نہ ہو

درد کے سہارے کب تلک چلیں گے

سانس رک رہی ہے فاصلہ بڑا ہے

ایسے مر جائیں کوئی نقش نہ چھوڑیں اپنا

یاد دل میں نہ ہو اخبار میں تصویر نہ ہو

ہر ایک کام ہے دھوکہ ہر ایک کام ہے کھیل

کہ زندگی میں تماشا بہت ضروری ہے

ہزاروں چاند ستارے چمک گئے ہوتے

کبھی نظر جو تری مائل کرم ہوتی

میری طرح سے یہ بھی ستایا ہوا ہے کیا

کیوں اتنے داغ دکھتے ہیں مہتاب میں ابھی

تم نہیں آؤ گے خبر ہے ہمیں

پھر بھی ہم انتظار کر لیں گے

چلنا لکھا ہے اپنے مقدر میں عمر بھر

منزل ہماری درد کی راہوں میں گم ہوئی

دل میں امنگ اور ارادہ کوئی تو ہو

بے کیف زندگی میں تماشا کوئی تو ہو

مجھے پہنچنا ہے بس اپنے آپ کی حد تک

میں اپنی ذات کو منزل بنا کے چلتا ہوں

شاید اپنا پتہ بھی مل جائے

جھانکتا ہوں تری نگاہوں میں

صرف چہرہ ہی نظر آتا ہے آئینہ میں

عکس آئینہ نہیں دکھتا ہے آئینہ میں

سب لوگ ہمیں ایک نظر آتے ہیں

اندازہ نہیں ہوتا ہے اب چہروں کا

تم ہو کھوئے ہوئے زمانے میں

میں خود اپنی ہی ذات میں گم ہوں

جنگلوں میں کہیں کھو جانا ہے

جانور پھر مجھے ہو جانا ہے

تیری کیا یہ حالت ہو گئی ہے مامونؔ

خود ہی کہہ رہا ہے خود ہی سن رہا ہے

فتح کے جشن میں ہیں سب سرشار

میں تو اپنی ہی مات میں گم ہوں

مجھے تو عشق ہے پھولوں میں صرف خوشبو سے

بلا رہی ہے کسی لالہ کی مہک مجھ کو

وہ برائی سب سے میری کر رہے ہیں

کیوں نہیں کرتے بیاں اچھائیوں کو

میں منزلوں سے بہت دور آ گیا مامونؔ

سفر نے کھو دیے سارے نشاں تمہاری طرف

ہر ایک جگہ بھٹکتے پھریں گے ساری عمر

بالآخر اپنے ہی گھر جائیں گے کسی دن ہم

جواب ڈھونڈ کے سارے جہاں سے جب لوٹے

ہمیں تو کر گیا یک لخت لا جواب کوئی

جو نور بھرتے تھے ظلمات شب کے صحرا میں

وہ چاند تارے فلک سے اتر گئے شاید

مرا وجود و عدم بھی اک حادثہ نیا ہے

میں دفن ہوں کہیں کہیں سے نکل رہا ہوں

مصروف غم ہیں کون و مکاں جاگتے رہو

خوابوں سے اٹھ رہا ہے دھواں جاگتے رہو

رفتار روز و شب سے کہاں تک نبھاؤں گا

تھک ہار کر میں گھر کی طرف لوٹ جاؤں گا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے