امداد علی بحر کے اشعار
آنکھیں نہ جینے دیں گی تری بے وفا مجھے
کیوں کھڑکیوں سے جھانک رہی ہے قضا مجھے
ہم نہ کہتے تھے ہنسی اچھی نہیں
آ گئی آخر رکاوٹ دیکھیے
خدا علیم ہے ہر شخص کی بناوٹ کا
کہو نمازیو سجدے کیے کہ سر پٹکا
بناوٹ وضع داری میں ہو یا بے ساختہ پن میں
ہمیں انداز وہ بھاتا ہے جس میں کچھ ادا نکلے
مجھ کو رونے تو دو دکھا دوں گا
بلبلا ہے یہ آسمان نہیں
خواہش دیدار میں آنکھیں بھی ہیں میری رقیب
سات پردوں میں چھپا رکھا ہے اس کے نور کو
کوثر کا جام اس کو الٰہی نصیب ہو
کوئی شراب میری لحد پر چھڑک گیا
تو خزاں میں جو سیر کو نکلے
ہرے ہو جائیں بے بہار درخت
میں ہاتھ جوڑتا ہوں بڑی دیر سے حضور
لگ جائیے گلے سے اب انکار ہو چکا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جوتا نیا پہن کے وہ پنجوں کے بل چلے
کپڑے بدل کے جامے سے باہر نکل چلے
ظالم ہماری آج کی یہ بات یاد رکھ
اتنا بھی دل جلوں کا ستانا بھلا نہیں
کافر عشق ہوں میں سب سے محبت ہے مجھے
ایک بت کیا کہ سمایا ہے کلیسا دل میں
زاہد سناؤں وصف جو اپنی شراب کے
پڑھنے لگیں درود فرشتے ثواب کے
کسی نے کعبہ بنایا کسی نے بت خانہ
بنا نہ ایک گھروندا تمہارے گھر کی طرح
پیار کی آنکھ سے دشمن کو بھی جو دیکھتے ہیں
ہم نے ایسے بھی ہیں اللہ کے پیارے دیکھے
نہ محبت ہے دلوں میں نہ حیا آنکھوں میں
یہ صنم تو نے بنائے ہیں خدایا کیسے
جان صدقے ایک بوسے پر کریں گے عمر بھر
دیکھ لو منہ سے ملا کر منہ ہمارا جھوٹ سچ
غیر پر کیوں نگاہ کرتے ہو
مجھ کو اس تیر کا نشانہ کرو
-
موضوع : تیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیوانگی میں پھینک رہے تھے جو ہم لباس
اتری قبا بخار بدن سے اتر گیا
قاضی کو جو رند کچھ چٹا دیں
مسجد کی بغل میں مے کدہ ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بھٹک کے کوئی گیا دیر کو کوئی کعبے
عجیب بھول بھلیاں ہے مرحلہ دل کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دنیا میں بحرؔ کون عبادت گزار ہے
صوم و صلٰوۃ داخل رسم و رواج ہے
دکھایا اس نے بن ٹھن کر وہ جلوہ اپنی صورت کا
کہ پانی پھر گیا آئینے پر دریاے حیرت کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا خبر تھی صبح ہو جائے گی تیرے نور سے
شام سے میرا چراغ خانہ رخصت مانگتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بے طرح دل میں بھرا رہتا ہے زلفوں کا دھواں
دم نکل جائے کسی روز نہ گھٹ کر اپنا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرا دل کس نے لیا نام بتاؤں کس کا
میں ہوں یا آپ ہیں گھر میں کوئی آیا نہ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرا لہو چٹائے گا جب تک نہ تیغ کو
قاتل کو دہنے ہاتھ سے کھانا حرام ہے
انگلیاں تو نے جو اے رشک چمن چٹکائیں
مجھ کو غنچوں کے چٹکنے کی صدائیں آئیں
بالوں میں بل ہے آنکھ میں سرمہ ہے منہ میں پان
گھر سے نکل کے پاؤں نکالے نکل چلے
امیر شال دو شالوں میں گرم راحت و عیش
غریب کے لیے جاڑوں میں زندگانی دھوپ
ابر بہار اب بھی جچتا نہیں نظر میں
کچھ آنسوؤں کے قطرے اب بھی ہیں چشم تر میں
یار تک لے نہ گئے اشک بہا کر ہم کو
اس کو بھی دیکھ لیا دیدۂ تر کچھ بھی نہیں
پوچھے رندوں سے کوئی ان مفتیوں کا جھوٹ سچ
دو دلیلوں سے یہ کر لیتے ہیں دعویٰ جھوٹ سچ
قتل پر بیڑا اٹھا کر تیغ کیا باندھوگے تم
لو خبر اپنی دہن گم ہے کمر ملتی نہیں
عاشق سے ناک بھوں نہ چڑھا او کتاب رو
ہم درس عشق میں یہ الف بھی پڑھے نہیں
نہ نکلے گا دل اس کے گیسو میں پھنس کر
یہ کالا کبھی من اگلتا نہیں ہے
خوب چلتی ہے ناؤ کاغذ کی
گھر میں قاضی کے مال آتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی حرم کو گیا کوئی دیر کو اے بحرؔ
ہزار شکر نہ میں اس دوراہے میں بھٹکا
نامہ کیا یار کو پہنچایا کہ معراج ہوئی
عرش پر بیٹھ کے گونجے گا کبوتر اپنا
نہ پایا امن مسلمان سے نہ کافر سے
کہیں ہوا میں ذبیحہ کہیں ہوا جھٹکا
چوٹی گندھوائی ہوئی یار نے کھلوا ڈالی
رحم آیا کوئی محبوس رسن یاد آیا
مختار ہیں وہ لکھیں نہ لکھیں جواب خط
صاحب کو روز اپنا عریضہ رپورٹ ہے
مرے بغیر نہ اک دم اسے قرار آتا
ذرا بھی ضبط جو مجھ بے قرار میں ہوتا
شب وصلت تو جاتے جاتے اندھا کر گئی مجھ کو
تم اب بہرا کرو صاحب سنا کر نام رخصت کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جا جا کے مسجدوں میں بھرے طاق بھی بہت
اس بت کی بارگہہ میں نہ پہنچا کسی طرح
مرے قتل پر تم نے بیڑا اٹھایا
مرے ہاتھ کا پان کھایا تو ہوتا
-
موضوع : پان
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یار کو دیکھتے ہی مر گئے اے بحرؔ افسوس
خاک میری کوئی آنکھوں میں قضا کی جھونکے
زاہدو دعوت رنداں ہے شراب اور کباب
کبھی میخانے میں بھی روزہ کشائی ہو جائے
واعظ کا جھوٹ بولنا تاثیر کر گیا
دم میں نمازیوں کی ہوئی انجمن خراب