Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

امداد علی بحر

1810 - 1878 | لکھنؤ, انڈیا

امداد علی بحر کے اشعار

4.5K
Favorite

باعتبار

آنکھیں نہ جینے دیں گی تری بے وفا مجھے

کیوں کھڑکیوں سے جھانک رہی ہے قضا مجھے

ہم نہ کہتے تھے ہنسی اچھی نہیں

آ گئی آخر رکاوٹ دیکھیے

خدا علیم ہے ہر شخص کی بناوٹ کا

کہو نمازیو سجدے کیے کہ سر پٹکا

بناوٹ وضع داری میں ہو یا بے ساختہ پن میں

ہمیں انداز وہ بھاتا ہے جس میں کچھ ادا نکلے

مجھ کو رونے تو دو دکھا دوں گا

بلبلا ہے یہ آسمان نہیں

خواہش دیدار میں آنکھیں بھی ہیں میری رقیب

سات پردوں میں چھپا رکھا ہے اس کے نور کو

کوثر کا جام اس کو الٰہی نصیب ہو

کوئی شراب میری لحد پر چھڑک گیا

تو خزاں میں جو سیر کو نکلے

ہرے ہو جائیں بے بہار درخت

میں ہاتھ جوڑتا ہوں بڑی دیر سے حضور

لگ جائیے گلے سے اب انکار ہو چکا

ظالم ہماری آج کی یہ بات یاد رکھ

اتنا بھی دل جلوں کا ستانا بھلا نہیں

جوتا نیا پہن کے وہ پنجوں کے بل چلے

کپڑے بدل کے جامے سے باہر نکل چلے

زاہد سناؤں وصف جو اپنی شراب کے

پڑھنے لگیں درود فرشتے ثواب کے

کافر عشق ہوں میں سب سے محبت ہے مجھے

ایک بت کیا کہ سمایا ہے کلیسا دل میں

کسی نے کعبہ بنایا کسی نے بت خانہ

بنا نہ ایک گھروندا تمہارے گھر کی طرح

پیار کی آنکھ سے دشمن کو بھی جو دیکھتے ہیں

ہم نے ایسے بھی ہیں اللہ کے پیارے دیکھے

نہ محبت ہے دلوں میں نہ حیا آنکھوں میں

یہ صنم تو نے بنائے ہیں خدایا کیسے

غیر پر کیوں نگاہ کرتے ہو

مجھ کو اس تیر کا نشانہ کرو

جان صدقے ایک بوسے پر کریں گے عمر بھر

دیکھ لو منہ سے ملا کر منہ ہمارا جھوٹ سچ

قاضی کو جو رند کچھ چٹا دیں

مسجد کی بغل میں مے کدہ ہو

دیوانگی میں پھینک رہے تھے جو ہم لباس

اتری قبا بخار بدن سے اتر گیا

بھٹک کے کوئی گیا دیر کو کوئی کعبے

عجیب بھول بھلیاں ہے مرحلہ دل کا

دنیا میں بحرؔ کون عبادت گزار ہے

صوم و صلٰوۃ داخل رسم و رواج ہے

کیا خبر تھی صبح ہو جائے گی تیرے نور سے

شام سے میرا چراغ خانہ رخصت مانگتا

دکھایا اس نے بن ٹھن کر وہ جلوہ اپنی صورت کا

کہ پانی پھر گیا آئینے پر دریاے حیرت کا

امیر شال دو شالوں میں گرم راحت و عیش

غریب کے لیے جاڑوں میں زندگانی دھوپ

انگلیاں تو نے جو اے رشک چمن چٹکائیں

مجھ کو غنچوں کے چٹکنے کی صدائیں آئیں

بے طرح دل میں بھرا رہتا ہے زلفوں کا دھواں

دم نکل جائے کسی روز نہ گھٹ کر اپنا

میرا لہو چٹائے گا جب تک نہ تیغ کو

قاتل کو دہنے ہاتھ سے کھانا حرام ہے

میرا دل کس نے لیا نام بتاؤں کس کا

میں ہوں یا آپ ہیں گھر میں کوئی آیا نہ گیا

ابر بہار اب بھی جچتا نہیں نظر میں

کچھ آنسوؤں کے قطرے اب بھی ہیں چشم تر میں

بالوں میں بل ہے آنکھ میں سرمہ ہے منہ میں پان

گھر سے نکل کے پاؤں نکالے نکل چلے

یار تک لے نہ گئے اشک بہا کر ہم کو

اس کو بھی دیکھ لیا دیدۂ تر کچھ بھی نہیں

پوچھے رندوں سے کوئی ان مفتیوں کا جھوٹ سچ

دو دلیلوں سے یہ کر لیتے ہیں دعویٰ جھوٹ سچ

قتل پر بیڑا اٹھا کر تیغ کیا باندھوگے تم

لو خبر اپنی دہن گم ہے کمر ملتی نہیں

عاشق سے ناک بھوں نہ چڑھا او کتاب رو

ہم درس عشق میں یہ الف بھی پڑھے نہیں

ہے نگینہ ہر ایک عضو بدن

تم کو کیا احتیاج زیور کی

نہ نکلے گا دل اس کے گیسو میں پھنس کر

یہ کالا کبھی من اگلتا نہیں ہے

خوب چلتی ہے ناؤ کاغذ کی

گھر میں قاضی کے مال آتا ہے

کوئی حرم کو گیا کوئی دیر کو اے بحرؔ

ہزار شکر نہ میں اس دوراہے میں بھٹکا

نامہ کیا یار کو پہنچایا کہ معراج ہوئی

عرش پر بیٹھ کے گونجے گا کبوتر اپنا

جا جا کے مسجدوں میں بھرے طاق بھی بہت

اس بت کی بارگہہ میں نہ پہنچا کسی طرح

نہ پایا امن مسلمان سے نہ کافر سے

کہیں ہوا میں ذبیحہ کہیں ہوا جھٹکا

چوٹی گندھوائی ہوئی یار نے کھلوا ڈالی

رحم آیا کوئی محبوس رسن یاد آیا

مختار ہیں وہ لکھیں نہ لکھیں جواب خط

صاحب کو روز اپنا عریضہ رپورٹ ہے

مرے بغیر نہ اک دم اسے قرار آتا

ذرا بھی ضبط جو مجھ بے قرار میں ہوتا

زاہدو دعوت رنداں ہے شراب اور کباب

کبھی میخانے میں بھی روزہ کشائی ہو جائے

مرے قتل پر تم نے بیڑا اٹھایا

مرے ہاتھ کا پان کھایا تو ہوتا

یار کو دیکھتے ہی مر گئے اے بحرؔ افسوس

خاک میری کوئی آنکھوں میں قضا کی جھونکے

شب وصلت تو جاتے جاتے اندھا کر گئی مجھ کو

تم اب بہرا کرو صاحب سنا کر نام رخصت کا

واعظ کا جھوٹ بولنا تاثیر کر گیا

دم میں نمازیوں کی ہوئی انجمن خراب

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے