تشنگی پر دوہے
کلاسیکی شاعری میں تشنگی
کا لفظ میخانے اورساقی کےموضوع سے وابستہ ہے۔ شراب پینے والے کے مقدرمیں ازلی تشنگی ہے وہ جتنی شراب پیتا ہے اتنی ہی طلب اورتشنگی بڑھتی جاتی ہے ۔ یہ شراب جوتشنگی بڑھاتی ہے معشوق کی آنکھوں کا استعارہ بھی ہے ۔ تشنگی اورپیاس کا لفظ جدید شاعری میں کربلا کے سیاق میں کثرت سے برتا گیا ہےاوراس موضوع میں بہت سی نئی جہتوں کا اضافہ ہوا ہے ۔
ندیا نے مجھ سے کہا مت آ میرے پاس
پانی سے بجھتی نہیں انتر من کی پیاس
ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہائے
جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اڑ جائے